گزشتہ دنوں ایک بڑے اخبار میں 2 خبریں نظر سے گذریں۔ پہلی یہ کہ ’بھارت اور 4 یورپی ممالک میں 279 کھرب روپے کے 15 سالہ تجارتی معاہدے پر دستخط، برطانیہ سے بھی معاہدہ آخری مراحل میں‘۔ اسی خبر کے نچلے حاشیے میں دوسری خبرتھی کہ ’اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں 2 سال لگیں گے، قرض ادائیگی کے لیے 700 ارب روپے کی ضرورت: احسن اقبال‘۔ اب عوام خود فیصلہ کرے کہ کون سے حکمران اپنے ملک اور اپنی عوام کے لیے مخلص ہیں اور کون کرپٹ اور صرف ذاتی مفاد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں؟
احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی معیشت کھوکھلی ہوچکی ہے۔ میرا ان سمیت تمام سیاستدانوں سے سوال ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے اپنی اپنی باریاں لے چکے ہیں، کہ ملک کا خزانہ کس نے خالی کیا؟ عوام نے؟ لیکن اس مظلوم عوام کی تو اس ملکی خزانے تک رسائی ہی نہیں ہے۔ ملکی خزانہ تو مختلف اوقات میں اپنی باریاں لینے والے وزرائے اعظم اور دیگر وزیروں اور مشیروں کے دسترس میں تھا۔ بے شمار روزمرہ کی اشیاء ایسی ہیں جن پر سیلز ٹیکس کے نام پر اربوں روپے کا ٹیکس عوام دے رہی ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل بھی عوام کو ٹیکس کٹنے کے بعد ہی دستیاب ہوتا ہے۔ بلکہ گھر باہر کھانا کھانے پر بھی عوام ہی ٹیکس دیتی ہے اور یہ تمام ٹیکس ایک خود کار نظام کے تحت جمع ہو کر حکومتی خزانے میں جاتا ہے تو پھر اس خزانے کو خالی کون کرتا ہے؟
پچھلے 70 سالوں میں تو آج تک کسی کرپٹ سیاستدان یا بیوروکریٹ سے کرپشن کے ذریعے بنائی گئی اربوں روپے کی کمائی کوئی مائی کا لعل وصول نہیں کر پایا۔ اور اگر کوئی سیاستدان یہ دعویٰ کرے کہ میں نے کرپشن نہیں کی تو اس سے پوچھا جائے کہ آپ اتنے پرتعیش گھر میں کیسے رہتے ہیں؟ بڑی بڑی اور لگژری گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں؟ آپ کے بچے نہ صرف پاکستان میں اعلیٰ ترین اور مہنگے اسکول کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں بلکہ ملک سے باہر بھی ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی سالانہ فیس ہی کروڑوں روپے ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے وہ ان میں سے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے پائے گا۔
اس ملک میں اگر کسی نے کرپشن کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی کوشش بھی کی تو اسے عوام کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ایک سیاسی پارٹی نے اپنی ساکھ اسی نعرے پر قائم کی کہ کسی کرپٹ شخص کونہیں بخشا جائے گا لیکن پھر عوام نے دیکھا کہ اپنے دور حکومت میں وہ کسی بھی سیاستدان سے کرپشن کا ایک روپیہ بھی واپس نا کروا پائے بلکہ خود ان کے وزرا اور مشیران کے خلاف ہی کرپشن کی کہانیاں بے نقاب ہوئیں۔
کرپشن کی روک تھام کیلئے نیب کے نام سے ایک بڑا ادارہ بنایا گیا لیکن اس کی کارکردگی بھی’ٹارگٹڈ‘ کاروائیاں کرنے کی حد تک محدود رہیں۔ صوبائی اینٹی کرپشن کے اداروں کا تو تذکرہ ہی بے سود ہے کہ وہ تو بنے ہی من پسند بلکہ ’حکومت پسند‘ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی لانڈری میں دھو کر پاک صاف کرنے کے لِیے ہیں۔
گذشتہ حکومت جو عدم اعتمادکی تحریک کے ذریعے وجود میں آئی اور مخلتف پارٹیوں کا ملغوبہ تھی، نے عوام کے مسائل حل کرنے اور انہیں کوئی ریلیف دینے کے بجائے صرف اور صرف اپنے لوگوں کے خلاف قائم ہونے والے کرپشن کے مقدمات کو ختم کرانے پر توجہ مرکوز رکھی اور نیب کے قوانین میں ایسی ترامیم کروانے میں کامیاب ہوگئ جس کے بعد کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے سکھ کا سانس لیا۔ جون 2022 میں نگراں حکومت کے دور میں قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے نیب کی 34 شقیں ختم کر دی گئیں جس پر صدر کے دستخط نہ کرنے کے باوجود قانون کا اطلاق ھو گیا۔ پاکستان کو 2400 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والے دو بڑے خاندانوں کے تمام کرپشن کے کیسز ختم یکے بعد دیگرے ختم ہوتے چلے گئے۔ ان ترامیم سے ماضی میں درج کرپشن کے مقدمات کے ملزمان کو بھی فائدہ حاصل ہونا تھا کیونکہ یہ ترامیم یکم جنوری 1985 سے نافذ العمل ہوئیں۔
ان ترامیم کے اہم نکات کے مطابق کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزم کے اہلِ خانہ کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ھوں گے.اس کا فائدہ سمجھنا بہت آسان تھا کہ کرپشن کے ذریعے کمائی جانے والی تمام چیزیں اہلخانہ کے نام پربنائی جائیں اور پھر ان ناجائزاثاثوں کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی نیب پر ہی ڈال دی گئی۔ ملزم کی جائیداد کی قیمت مارکیٹ کی بجائے ڈی سی ریٹ پر ھو گی، دورانِ کیس ملزم متنازعہ جائیداد بیچ سکتا ھے، کیس ثابت نہ ھو تو نیب افسر کو 5 سال سزا ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جس نے ستمبر 2022 میں ان ترامیم کے خلاف دائر ہونے والی درخواست پر سماعت کے بعد ان ترامیم کو معطل کر دیا اور تا حال معطل ہی ہیں جس کے بعد کچھ مقدمات کو دوبارہ کھول کرنیب عدالتوں کے سپرد کر دیا گیا۔
اب موجودہ حکومت کے آجانے کے بعد گیند ایک بار پھر ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہونے کا دعوی کرنے والی پارٹیوں کے کورٹ میں آگئی جسے اب وہ اپنی مرضی کے زاویہ پر دوسری کورٹ میں پھینکیں گے۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جس پارٹی کے لیڈر پر بھی بظاہر سنگین الزامات کے تحت مقدمات قائم ہوئے، وہ تما م کے تمام ان کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد آھستہ آھستہ ہوا میں تحلیل ہو گئے اور اس پر بھی ستم ظریف دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اس ملک کی عدالتیں آزاد ہیں۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس ملک کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار عوام نہیں ہیں بلکہ وہ فیصلہ کار اور مخفی طاقتیں ہیں جو صرف اور صرف اپنے مفاد کی خاطر جمہوری حکومتوں کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دیتیں اور گذشتہ کئی دھائیوں سے ہونے والے نام نہاد انتخابات میں اپنی پسند کی بنیاد پر سیاستدان کا انتخاب کروایا جاتا ہے۔ اس کے خلاف بولنے والا یا تو باغی ٹھہرایا جاتا ہے یا غدار۔ پہلے تو یہ بہانہ تھا کہ ’عوام ان حکمرانوں کو خود منتخب کرتی ہے تو اس میں ہمار ا کیا قصور‘۔ لیکن اس الیکشن کے بعد تو یہ بہانہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ اب تو ’آپ‘ کے اپنے منتخب کردہ لوگ ایوانوں میں بیٹھے ہیں کوشش کریں کہ اس بار ہی کوئی معجزہ رونما ہو جائے کہ غریب عوام اپنی محنت سے کمائی ہوئی تنخواہ کو صرف بجلی، گیس اور دیگر بلوں میں ہی نا پھونک دیں اور بقیہ مہینے ادھار مانگ کر گھر کا نظام چلائیں۔