یوں تو سوشل میڈیا ایک نعمت ہے اور یہ ہر ایک کو رابطے اور اپنے خیالات کے پرچار کا پورا موقع فراہم کرتا ہے لیکن اس صورت میں یہ کچھ لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بھی بن جاتا ہے جب اس ذریعے سے ان کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی فیک نیوز کا سلسلہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے جس کے ذریعے جہاں سیاست کے حوالے سے گمراہ کن خبروں کا دور دورہ ہے وہیں کسی مشہور شخصیت کے حوالے سے بھی ایسی بے بنیاد خبریں شیئر کردی جاتی ہیں جو ان لوگوں کے لیے انتہائی اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ ایسی خبروں کا نشانہ بننے والی شخصیات کے خاندان والے اور دوست احباب بھی وقتی طور پر ان اطلاعات کو درست سمجھ کر غم و پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
ایسا ہی کچھ ملک کی معروف شخصیت، لیجنڈری مصنف، طنز و مزاح نگار او ر میزبان انور مقصود کے ساتھ بھی ہوا جنہیں اپنے حوالے سے ایک جھوٹی خبر کی تردید کے لیے اسی سوشل میڈیا کا سہارہ لینا پڑا۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خبر گرم تھی کہ انور مقصود کو ’نامعلوم افراد‘ نے اغوا کرلیا ہے اور ان کا کہیں پتا نہیں چل رہا۔
اس خبر کے بعد شوبز رپورٹرز و دیگر صحافیوں میں بھی کھلبلی مچ گئی اور انہوں نے انور مقصود سے رابطے کی کوششیں کیں لیکن شاید انور مقصود کے پاس ویسے ہی اتنی کالز جا رہی ہوں گی اس لیے انہوں نے فون اٹینڈ کرنا بھی چھوڑ دیا ہوگا۔
انور مقصود سے براہ راست رابطہ نہ ہونے کی صورت میں پھر پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ کے فون پر بھی صحافیوں و دیگر افراد کا کالز کا تانتا بندھ گیا اور انہوں نے بھی یہی بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
تاہم صورتحال کی سنگینی سمجھتے ہوئے اب انور مقصود نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ سلامت ہیں اور ان کے اغوا کے حوالے سے جو بھی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں وہ جھوٹی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں کچھ خبریں سرگرم تھیں جن کی وجہ سے میرا جینا عذاب ہوگیا تھا ہر ملک میں میرے چاہنے والوں کے مجھے فون آرہے تھے اور وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کیسے ہیں۔
Of the #Fakedia and #Churnalists
Even people like Anwar Maqsood are victims. pic.twitter.com/v5CmNNlCfL— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) March 14, 2024
انور مقصود نے کہا کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوں اور جو کچھ آپ لوگ سن رہے ہیں وہ ہوا نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ ان کی عمر 84 برس ہے اور وہ پاکستانی عوام کے لیے 61 برس سے لکھ اور بول رہے ہیں۔
انور مقصود کا کہنا تھا کہ کچھ افواہ پھیلائی گئیں ہیں جن میں یہ بھی کہا گیا کہ انہیں مارا پیٹا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے سپاہیوں سے محبت ہے جو سرحدوں پر ہم لوگوں کے لیے جانیں دے رہے ہیں‘۔
انور مقصود نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ سب میں کسی کے بولنے پر نہیں کہہ رہا بلکہ دل سے کہہ رہا ہوں (یعنی یہ کوئی سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ والا معاملہ نہیں ہے)‘۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اسمارٹ فون نہیں بلکہ سادہ والا فون ہے تو وہ ٹوئٹ کہاں سے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے نام پر 42 اکاؤنٹس ہیں جو ان کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور وہ سب کے سب جعلی ہیں۔
انور مقصود نے کہا کہ میں نے ایف آئی اے اور پولیس سے درخواست کی تھی کہ یہ اکاؤنٹ بند کروا دیے جائیں لیکن اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ ’جب تک میں ہوں اپنے ملک پاکستان اور آپ کے لیے کام کرتا رہوں گا۔
الغرض انور مقصود نے مداحوں سے درخواست کی کہ ایسی جعلی خبروں پر کان نہ دھریں۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہ تو سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ ہے اور نہ ہی میں سوشل میڈیا دیکھتا ہوں، لوگ مجھے فون کرکے بتا رہے ہیں کہ میں اغوا ہوگیا ہوں‘۔
اس حوالے سے سابق وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی ایکس پر اپنے ٹوئٹ میں افسوس کا اظہار کیا۔
مرتضیٰ سولنگی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ انور مقصود جیسی (معروف اور ہر دلعزیز) شخصیات کو بھی (اس طرح سوشل میڈیا پر) پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔