سندھ ہائیکورٹ میں عورت مارچ اور پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں رقص کی تقریب کے خلاف درخواست پر منگل کو سماعت ہوئی جس میں صدر آرٹس کونسل احمد شاہ اور دیگر فریقین پیش ہوئے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے فریقین سے کہا کہ یہاں پر کسی کو بلانے کا مقصد بے عزت کرنا نہیں ہوتا جو اشتہار دیا گیا تھا اس میں موجود تمام لوگوں کو آج بلایا گیا ہے۔
آرٹس کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2 طرح کے پروگرام ہوئے تھے اور جو رقصد ہوا تھا وہ ایک ثقافتی سرگرمی تھی۔
وکیل نے کہ کہ ہمارے کسی پروگرام کا تعلق عورت مارچ سے نہیں تھا بس ایک کلچرل ایونٹ تھا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل میں رقص کا ایک اور پروگرام بھی تھا لیکن وہ آرٹس کونسل کے ایونٹ سے علیحدہ تھا۔
احمد شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پچھلے 10 برسوں سے 8 مارچ کے دن آرٹس کونسل میں خواتین کے مختلف پروگرام رکھے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کی پوری گورننگ باڈی عدالت میں موجود ہے۔
محنت کش عورت ریلی کے وکیل کی جانب سے بھی جواب جمع کروادیا گیا۔
احمد شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل اگر کوئی پروگرام کرتا ہے تو اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ ’آپ لوگ اپنے اظہار رائے کے لیے آزاد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سڑکوں پر کچھ بھی کرتے پھریں۔‘
بعد ازاں عدالت نے سماعت 3 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔