انتخابی سال میں ڈیپ فیکس: کیا ایشیا اس عفریت سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

جمعرات 14 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس سال کم از کم 60 ممالک اور 4 ارب سے زیادہ افراد اپنے رہنماؤں اور نمائندوں کو ووٹ دیں گے۔

ڈیٹا کی تصدیق کرنے والی فرم سمسب کے مطابق سنہ 2022 سے سنہ 2023 تک دنیا بھر میں ڈیپ فیکس کی تعداد میں 10 گنا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ ایشیا پیسیفک میں 1,530 فیصد ہے۔

سائبرسیکیوریٹی فرم کراؤڈ اسٹرائک نے کہا ہے کہ اس سال طے شدہ انتخابات کی تعداد کے ساتھ متعدد قومی ریاستی ادارے بھی غلط معلومات یا غلط معلومات پھیلانے کی مہم چلا سکتے ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سنگاپور میں اے آئی گورننس کے سینیئر ڈائریکٹر سائمن چیسٹرمین کا کہنا ہے کہ ریگولیشن، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے لحاظ سے ایشیا انتخابات میں ’ڈیپ فیک‘ سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

14  فروری کو ہونے والے انڈونیشیا کے انتخابات سے پہلے انڈونیشیا کے مرحوم صدر سہارتو کی سیاسی جماعت کی وکالت کرنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کی وہ کبھی صدارت کرتے تھے۔

اے آی سے تیار کردہ ڈیپ فیک ویڈیو جس نے ان کے چہرے اور آواز کو کلون کیا اس پر صرف ایکس پر 4.7 ملین کمینٹس آئے۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا، ایسا پاکستانیوں کے ساتھ بھی ہوا

پاکستان میں قومی انتخابات کے نزدیک سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے بھی ایک ڈٰیپ فیک سامنے آیا جس میں وہ یہ اعلان کرتے سنے جاسکتے تھے کہ ان کی پارٹی انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔

 دریں اثنا امریکا میں نیو ہیمپشائر کے رائے دہندگان نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے صدارتی پرائمری میں ووٹ نہ دینے کے بارے میں جھوٹ سنا۔

سیاست دانوں کی ڈیپ فیکس تیزی سے عام ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر سنہ 2024 کو تاریخ کا سب سے بڑا عالمی انتخابی سال قرار دیا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس سال کم از کم 60 ممالک اور 4 ارب سے زیادہ لوگ اپنے لیڈروں اور نمائندوں کو ووٹ دیں گے اور اس تناظرمیں ڈیپ فیکس ایک سنگین تشویش کا باعث بنتا ہے۔

سوشل پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل اشتہارات سمیت آن لائن میڈیا نے سنہ 2021 اور سنہ 2023 کے درمیان شناختی فراڈ کی شرح میں سب سے زیادہ 274 فیصد اضافہ دیکھا۔

پیشہ ورانہ خدمات، صحت کی دیکھ بھال، نقل و حمل اور ویڈیو گیمنگ بھی شناختی فراڈ سے متاثر ہونے والی صنعتوں میں شامل تھیں۔

اپنی 2024 گلوبل تھریٹ رپورٹ میں سائبرسیکیورٹی فرم کراؤڈ اسٹرائیک نے اطلاع دی ہے کہ اس سال شیڈول انتخابات کی تعداد کے ساتھ، چین، روس اور ایران کے قومی ریاستی اداکاروں کی جانب سے خلل ڈالنے کے لیے غلط معلومات یا غلط معلومات کی مہم چلانے کا بہت زیادہ امکان ہے۔

سائمن چیسٹرمین نے کہا کہ اگر کوئی بڑی طاقت فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کسی ملک کے انتخابات میں خلل ڈالنا چاہتی ہے تو پھر زیادہ سنگین مداخلتیں ہوں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ڈیپ فیکس اب بھی متعلقہ ممالک کے عناصر کے ذریعے تیار کیے جائیں گے۔

پرنسپل ریسرچ فیلو اور سنگاپور میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں سوسائٹی اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ کیرول سون نے کہا کہ ڈومیسٹک عناصر میں اپوزیشن پارٹیاں اور سیاسی مخالفین یا انتہائی دائیں بازو اور بائیں بازو والے شامل ہو سکتے ہیں۔

ڈیپ فیک کے خطرات

ڈیپ فیکس معلومات کے ماحولیاتی نظام کو آلودہ کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے پارٹی یا امیدوار کے بارے میں درست معلومات یا باخبر رائے قائم کرنا مشکل بنا دیتے ہیں۔

سائمن چیسٹرمین نے کہا کہ ووٹروں کو کسی خاص امیدوار کی طرف سے بھی روکا جا سکتا ہے اگر وہ کسی ایسے گھناؤنے معاملے کے بارے میں مواد دیکھتے ہیں جو اسے جعلی قرار دینے سے پہلے وائرل ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ متعدد حکومتوں کے پاس ٹولز (آن لائن جھوٹ کو روکنے کے لیے) موجود ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کا تدارک ہونے سے پہلے ہی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہوگی۔

کراؤڈ اسٹرائک کی حیرت انگیز نشاندہی

کراؤڈ اسٹرائک کے ایڈم میئرز نے کہا کہ ڈیپ فیکس لوگوں میں تصدیقی تعصب کو بھی جنم دے سکتے ہیں، اگرچہ وہ اپنے دل میں جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے لیکن اگر یہ وہ پیغام ہے جو وہ چاہتے ہیں اور جس چیز پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں تو وہ اسے پڑھیں گے اور پھیلائیں گے۔

چیسٹرمین کا کہنا تھا کہ جعلی فوٹیج جس میں انتخابات کے دوران بدانتظامی دکھائی دیتی ہے جیسے بیلٹ بکس بھرنا وغیرہ لوگوں کا الیکشن کی درستگی پر سے اعتماد اٹھا سکتا ہے۔

ذمہ دار کون؟

چیسٹرمین نے کہا کہ اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو زیادہ ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ جو نیم عوامی کردار ادا کرتے ہیں۔

کیرول سون  نے بتایا کہ فروری میں، 20 معروف ٹیک کمپنیوں بشمول مائیکروسافٹ، میٹا، گوگل، ایمیزون، آئی بی ایم کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اسٹارٹ اپ اوپن اے آئی اور اسنیپ، ٹک ٹاک اور ایکس جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں نے انتخابات میں اے آئی کے دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ عزم کا اعلان کیا۔

کیرول سون کا یہ بھی کہنا تھا کہ دستخط شدہ ٹیک ایکارڈ ایک اہم پہلا قدم ہے لیکن اس کی تاثیر عمل درآمد اور نفاذ پر منحصر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیک کمپنیوں کے اپنے پلیٹ فارمز پر مختلف اقدامات کو اپنانے کے ساتھ، ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

کیرول سون کا کہنا تھا کہ ٹیک کمپنیوں کو اس قسم کے فیصلوں کے بارے میں بھی بہت شفاف ہونا پڑے گا۔

لیکن چیسٹرمین کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیوں سے یہ توقع کرنا بھی غیر معقول ہے کہ وہ بنیادی طور پر عوامی کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کس مواد کی اجازت دی جائے اس کا فیصلہ کرنا ایک مشکل کام ہے اور کمپنیوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف ان کمپنیوں کے اچھے ارادوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے ضابطے قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ان کمپنیوں کے لیے توقعات طے کرنے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے کولیشن فار کنٹینٹ پرووینس اینڈ آتھنٹیسیٹی نے مواد کے لیے ڈیجیٹل اسناد متعارف کرائی ہیں جو ناظرین کو تصدیق شدہ معلومات دکھائے گی جیسے کہ تخلیق کار کی معلومات، یہ کہاں اور کب تخلیق کی گئی، نیز یہ کہ آیا تخلیقی مواد بنانے کے لیے اے آئی کا استعمال کیا گیا یا نہیں۔

چیسٹرمین نے کہا کہ ٹیکنالوجی مسئلے کے حل کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا ایک بڑا حصہ صارفین پر آتا ہے جو ابھی تک تیار نہیں ہیں۔

کیرول سون نے کہ کہ عوام کو زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور جب کوئی چیز انتہائی مشکوک ہو تو حقائق کی جانچ کے علاوہ معلومات کے اہم ٹکڑوں کو بھی حقیقت کو بھی پرکھ لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور خاص طور پر اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیپ فیک سے نمٹنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp