اسلام آباد کے نواحی گاؤں پھلگراں کی رہائشی رضیہ بی بی کو 10 سال قبل طلاق ہوئی تھی۔ خاندانی جرگہ بیٹھا تھا جس میں طے یہ پایا کہ رضیہ کے 3 میں سے 2 بچے ان کے سابقہ خاوند کے پاس رہیں گے۔
رضیہ کو ایک شیر خوار کی کسٹڈی ملی، وہ بھی اس شرط پر کہ وہ دوسری شادی نہیں کریں گی۔ بعد ازاں سابقہ خاوند نے اپنے خراب مالی حالات کے سبب ایک اور بیٹا رضیہ کے حوالے کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں
رضیہ گزشتہ 2 سال سے سابقہ خاوند کے حوالے کیے گئے اپنے سب بڑے بیٹے سے نہیں مل پائیں۔ وہ جب بھی اپنے بیٹے سے بات کرنے کے لیے فون کرتی ہیں تو مختلف حیلے بہانے کر کے انہیں بات نہیں کرنے دی جاتی اور ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ چھٹیوں میں ان کا بیٹا ان سے ملنے آجائے گا لیکن وہ ہر دفعہ اپنے لختِ جگر کا انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہیں۔
’ہر نوالے پر اس کی یاد آتی ہے‘
رضیہ نے وی نیوز کو بتایا کہ 2 چھوٹے بیٹے ان کے پاس رہتے ہیں جبکہ سب سے بڑا بیٹا جس کی عمر اب 13 برس ہے طلاق کے بعد ان کی نند کو دے دیا گیا تھا جو راولپنڈی میں رہتی ہیں۔
رضیہ کا کہنا تھا کہ ’میرا بیٹا 8ویں جماعت کا طالبعلم ہے، وہ اب اتنا سمجھدار ہو چکا ہےکہ مجھ سے ملنے آسکتا ہےاور میں بھی اسے لا سکتی ہوں لیکن اسے مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں ہے‘۔
’مجھے کھانے کے ہر نوالے پر اس کی یاد آتی ہے لیکن اب مجھےایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے وہ مجھے بھول چکا ہوگا‘، رضیہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر یہ بات کہی تو لگا ان کے سینے کا دکھ اطراف میں ہر سو پھیل گیا۔
رضیہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ انہیں اپنے پاس موجود 2 بچوں کی کفالت کے لیے سابقہ خاوند کی طرف سےنفقہ بھی نہیں ملتا اور وہ بہت مشکل سے اپنے دونوں بچوں کےتعلیمی اخرجات لوگوں کے گھروں میں کام کر کے پورا کررہی ہیں۔ وہ اپنے محدود وسائل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے عدالتوں کے چکر نہیں لگا سکتیں۔
تعلیم یافتہ والدین کے بچے بھی رُلتے ہیں
رضیہ تو پڑھی لکھی نہیں ہیں اور غریب بھی ہیں لیکن بہت سے پڑھے لکھے اور معاشی طور پر مضبوط طلاق یافتہ جوڑے بھی اپنے بچو ں سے ملنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
عبدالرؤف (فرضی نام) ایک ایسے والد ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرا ئض سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کی طلاق کوتقریبا 6 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے بے چین رہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اکژ عدالت کے چکر بھی لگاتے ہیں لیکن ان کی اپنی بیٹی سے ملاقات کی درخواست گزشتہ 7 ماہ سے التوا کا شکار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی بڑی ہو چکی ہے اور میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں کہ میں اس سے نہ صرف ملوں بلکہ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت بھی گزارسکوں، مجھے اپنی بیٹی کی بہت یاد آتی ہے‘۔
بچوں کی حوالگی اور ملاقات کے قوانین
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم الرحمٰن ایڈوکیٹ نے بتایا کہ قانون کے مطابق طلاق کے بعد کم سن بچے ماں کے پاس ہی رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 سال تک کا لڑکا اور بالغ ہونے تک لڑکی (عموماً 12سال) ماں کے پاس رہ سکتی ہے البتہ نفقہ کی ذمہ داری والد کی ہوگی۔
نعیم الرحمٰن ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس عرصے کے بعد عدالت کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کی تعلیم وتربیت اور فلاح وبہبود کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماں ہو یا باپ، بچوں سے ملنے کے لیے سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور عدالت کے احاطے میں اگر ملاقات ہو رہی ہو تو وہاں بھی ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ والدین اور بچے دونوں مطمئن ہوں اور یہ ملاقات ان کے لیے ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنے نہ کہ پرشانی کاسبب۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فیملی کورٹس ایکٹ 1964، مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 اور گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کے تحت بچوں کی حوالگی اور ملاقاتوں کے حوالے سے گارڈین کورٹس میں سائلین کو انصاف تو مل رہا ہے لیکن طلاق کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے زیر سماعت مقدمات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان عدالتوں کی تعداد میں مقدمات کے تناسب سے اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
قانون کے مطابق دودھ پیتے بچے ماں کی تحویل میں دے دیے جاتے ہیں لیکن طلاق کے بعد والدین کے درمیان معاملات اتنے خراب ہو جاتے ہیں کہ وہ بچوں کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال نہیں کرتے اور بچوں سے ملاقات کے مسائل جو باہمی رضامندی سے طے ہونے چاہئیں ، ان میں عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خا ص طور پر زیادہ تر نگہبان والدہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بچہ باپ سے نہ مل پائے اور اگر والدہ کی مرضی ملانے کی نہیں ہے تو عدالت کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کی ایسی حق تلفی پر تادیبی کاروائی کی جائے لیکن زیادہ ترایسے معاملات میں نگہبان والدین کی طرف سے ٹال مٹول سےکام لیا جاتا ہے جس کا نقصان صرف بچے کو ہوتا ہے۔
احا طہ عدالت میں بچوں سے ملاقات کے مختصر اوقات
موجودہ کسٹڈی قوانین اور رائج عدالتی طریقہ کار میں علیحدگی سے متاثرہ بچوں کو زیادہ تر صرف 2 گھنٹے ماہانہ کے تناسب سے احاطہ عدالت میں ملاقات کروائی جاتی ہے جو کہ قانونی ماہرین کے مطابق بچے کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
بچے کے علاوہ یہ والدین کے ساتھ بھی زیادتی ہے کیونکہ 2 گھنٹے ملاقات کا وقت کسی طور بھی کافی نہیں۔
دوسری جانب والدین میں سے زیادہ متاثر والد ہوتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر نابالغ بچے ماں کے پاس ہوتے ہیں اور والد کو مہینے میں صرف 2 گھنٹے ملاقات کا وقت ملتا ہے۔
ملاقات کا کمرہ
نعیم الرحمٰن ایڈوکیٹ نے بتایا کہ حال ہی میں طلاق یافتہ جوڑوں کی بچوں سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کے احاطے میں ’وزٹیشن روم‘ بنایا گیا ہےجو ہر ممکن سہولت مہیا کرتا ہے لیکن ملاقات کو آئے اکثر بچے وہاں روتے دھوتےاور چیختے چلاتے رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے زیادہ تر نگہبان والد یا والدہ سے مانوس ہوتے ہیں اور دوری کی وجہ سے ان والدین سے ملنا نہیں چاہتے جن کے ساتھ وہ نہیں رہتے۔
بچوں کی ضد
انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں یا والد کے ساتھ رہنے والے بچے ملاقات کو آئے والد یا ماں کے ساتھ جانے کی ضد کرتے ہیں۔
یہاں بچوں سے ملاقات کے لیے عام طور پر ہفتے کا دن مقرر کیا جاتا ہے کیونکہ اس دن بچوں کے اسکول میں چھٹی ہوتی ہے۔
طلاق کے بچوں پر منفی اثرات
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت جیسے رویوں کی وجہ سے طلاق کی شرح میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جس کے منفی اثرات بچوں کی شخصیت پر پڑتے ہیں۔
فطرت نے بچوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کا ساتھ لازم کیا ہوا ہے ۔ بچوں کی شخصیات میں اعتماد، پختگی، احساس اور دیگر مثبت خصائل کو فروغ دینے کے لیے باپ کی شفقت و سرپرستی اور ماں کا سایۂ عافیت لازم و ملزوم ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ان کی شخصیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ والدین طلاق کے بعد بھی ان کی جذباتی نشوونما کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات کا انتظام کرتے رہیں۔
ان کی علیحدگی ہو نے پر بچے اگر والدہ کے پاس ہوں تو وہ والد سے ملنے کے لیے بےچین رہتے ہیں اور اگر انہیں نہ ملنے دیا جائے تو وہ ذہنی کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اسی طرح اگر بچے والد کے پاس ہوں اور انہیں والدہ سے نہ ملنے دیا جائے تو بھی وہ اس صورتحال سے گزرتے ہیں۔ بچوں پر اس صورتحال کے اثرات کم کرنے کے لیے والدین سے باقاعدگی سے طویل دورانیے کی ملاقات نہایت اہم ہے۔
تاہم معاشرتی و خاندانی روایات اور رائج قوانین بچوں پر گزرنے والے کرب کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ والدین سے ملاقات کا باقاعدہ طریقہ کار وضع کرکے اس پر فریقین کی جانب سے سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی راہیں جدا کرلینے والے والدین کے بچے متاثر نہ ہوں۔