پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیئر رہنما اور سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ شیر افضل مروت سچ بول رہے ہیں، مولانا شیرانی گروپ کے ساتھ اور مجلس وحدت المسلیمین ( ایم ڈبلیو ایم) کے ساتھ ہی اتحاد کی بات فائنل ہوئی تھی۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ مولانا شیرانی گروپ کے ساتھ اتحاد کا معاملہ اچانک تبدیل ہو گیا، ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ بھی بات فائنل لیکن اتحاد سنی اتحاد کونسل کے ساتھ ہو گیا اور یہی ایک غلط فیصلہ تھا۔
مزید پڑھیں
الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ دونوں کا یہی فیصلہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ میں نہیں انہوں نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت المسلیمین ( ایم ڈبلیو ایم) کے ساتھ اتحاد کی اجازت عمران خان نے اس لیے دی تھی کہ ہم مخصوص نشستیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں عمران خان کے ساتھ کچھ پارٹی رہنماؤں نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اور باہر آکر انہوں نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الآئنس کا اعلان کر دیا اور یہی بڑی غلطی تھی۔
علی ظفر نے کہا کہ انہوں نے اس اتحاد کے بارے میں عمران خان سے پوچھا تو انہوں نے بھی انکار کیا کہ میں نے تو اس کی حتمی اجازت نہیں دی تھی تاہم مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف کو ایک چھتری چاہیے تھی اس لیے انہوں نے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد کی بات کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس میٹنگ میں بھی تھا جس میں عمران خان نے کسی بھی جماعت کے ساتھ مخصوص نشستوں کے لیے اتحاد کی بات کی تھی۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد باہر آ کر سنی اتحاد کونسل کے ساتھ جس اتحاد کا اعلان کیا گیا وہاں ہی سے ’ مس کمیونیکیشن ‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور یہی فیصلہ درست نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ اس معاملے کے کرداروں کا تعین ہونا چاہیے تاہم اس معاملے پر نظر ثانی ضروری ہونی چاہیے تا کہ آئندہ ایسا کچھ نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا تو ایسا کوئی قانون نہیں کہ اس میں کوئی شمولیت اختیار نہیں کر سکتا، ہمارا مؤقف یہی ہے کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں تو ایسا بھی نہیں کہ ان نشستوں کو دیگر جماعتوں میں بانٹ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تشریح کے لیے ہم سپریم کورٹ بھی جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں ہم نے ’ باپ‘ پارٹی کی مثال دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش کی لیکن وہاں یہ جواب دیا گیا کہ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ضرور ہو گا لیکن اس کی تشریح کہیں نہیں کہ ادارے نے ’ باپ‘ پارٹی کو کن وجوہات کی بنیاد پر مخصوص نشستیں آلاٹ کی تھیں۔