عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے جہاں بھوک اور مفلسی کے بدنما مناظر کے آگے سب بے بس ہیں۔ بے بسی سے بڑھ کر مگر اسے بے حسی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایک ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی جس میں فلسطین کے معصوم بچے ننگے پاؤں، ہاتھوں میں برتن اٹھائے کھانے کی لائن میں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا تمہیں کچھ کھانے کو ملا؟ لیکن ہر بچہ بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہےکیونکہ ان میں سے ہر ایک کو کھانا نصیب نہیں ہوا، کچھ کے حصہ میں آئے تو صرف دلاسے۔
کہتے ہیں انسان اچانک نہیں مرتا بلکہ تنہا تھوڑا تھوڑا مرتا ہے، جب کوئی پیارا اسے چھوڑ جائے تو تھوڑا اور مر جاتا ہے لیکن بھوک اور مفلسی کے آگے تو موت لفظ بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے اور وہ پل پل مرتا ہے۔خاص کر جب ملک حالتِ جنگ میں ہو اور ماں باپ بھی آخری سفر پر روانہ ہو چکے ہوں۔
یہ حالت فلسطین کے معصوم بچوں کی ہے جہاں اسرائیلی جارحیت نے معصوم بچوں سے مسکراہٹیں بھی چھین لی ہیں جبکہ دوسری جانب امت مسلمہ کے علمبردار تھالوں میں سجے مرغ پلاؤ کی دعوتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہےکہ زندگی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا؟ بے بسی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا؟ اور سب سے بڑھ کر بے حسی ایسی بھی ہوتی ہے کیا؟
سوشل میڈیا پر جاری یہ محض ایک ویڈیو نہیں بلکہ ایک عکس ہے غزہ میں بے بسی و بے کسی کا عکس، بھوکے بچوں کا عکس۔ یہ ان بچوں کی دم توڑتی امیدیں ہیں جنہوں نے خون کے سائے میں رمضان جیسے مقدس مہینے کا آغاز کیا، غزہ میں موت کا رقص جاری ہے اور اس رقص میں معصوم بچے بے بسی کی علامت بنے اپنے لیے کھانے کے متلاشی ہیں جو اس امید پر زندہ ہیں کہ طلوع ہونے والا سورج امن لے کر آئے گا ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اسلامی ممالک اسرائیل کو لگام دینے کی بجائے صرف مذمتی بیانات سے کام چلا رہے ہیں۔ اب تو وہ مذمت کرنے سے بھی گئے۔ اور وہ یورپی ممالک جو کسی کتے اور بلی کے ’حقوق‘ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔ جن کا دن رات دنیا کو یہ درس دیتے گزرتا ہے کہ جانوروں کے حقوق ہوتے ہیں، وہ بھی خاموشی کی چادر اوڑھے ہے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ سب اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ انہیں بھوک اور جنگ سےلڑتے بچے دکھائی نہیں دے رہے ، اس سب نے انسانی حقوق کے دعوےداروں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔
اس دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز صرف اور صرف بھوک ہے۔ بھوک کے آگے تمام مذاہب انسانیت، تہذیب و تمدن بے بس ہیں۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو دنیا کی تمام چیزیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں حتی کہ باقی انسان بھی۔ صہیونی ریاست کھلم کھلا انسانیت کی تذلیل کر رہی ہے۔اسلامی ریاستوں نےمذمت، افسوس اور تعزیت کے علاوہ اور کیا بھی تو کیا ؟ غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے لیکن اسلامی ممالک صہیونیت کے خوف سے اسرائیلی جارحیت کیخلاف عملی اقدامات کرنے سے گھبراتے ہیں۔
اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 31ہزار سے تجاوزکر چکی ہے۔ شہید ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن اتنی کثیر تعداد میں شہادتوں پر کہیں کوئی قیامت نہیں آئی۔
فلسطینی اب بھی امید کی روشنی دیکھ رہے ہیں کہ خاموش تماشائی دنیا میں کہیں سے کوئی مسیحا آئے گا اور ان کی داد رسی کرے گا لیکن اُن کی آواز اُن کے قریب ترین مسلمان ہمسائے ملک بھی سُننے کو تیار نہیں۔
بھوک ،افلاس، غربت اوربے روزگاری کے درمیان گزرنے والی زندگی کو اگر زندگی کہا جائے تو موت کیسی ہو گی؟ریاستیں اگر ظالم کے ساتھ ہیں تو فلسطینیوں کو اس بوجھ سے آزاد کون کرائے گا ؟