کیا باب وولمر آئرلینڈ سے شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے؟

اتوار 17 مارچ 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ سترہ مارچ 2007 کا دن تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ ہر ایک جیسے اندر سے ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔ چند گھنٹے قبل پاکستانی ٹیم کو شکست کا وہ جھٹکا ملا تھا جس نے ہر کھلاڑی کو صدمے سے دوچار کردیا تھا۔ ایک کمزور اور ناتجربہ کار آئرلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے منجھی ہوئی پاکستانی ٹیم کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ 3 وکٹوں کی شکست نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا عالمی کپ 2007 کا سفر تمام کردیا تھا۔ کپتان انضمام الحق اور ان کے کھلاڑی اس ہار سے دم بخود تھے، اور پرستاروں پر تو سکتے کا عالم تھا۔

عمران نذیر، محمد حفیظ، یونس خان، محمد یوسف، شعیب ملک، انضمام الحق، کامران اکمل، اور اظہر محمود جیسی بیٹنگ لائن والی ٹیم صرف 132 رنز پر ڈھیر ہوجائے تو یہ کرکٹ کی تاریخ کے لیے سب سے بڑا دھماکہ ہی ہوگا۔ اُدھر ڈریسنگ رو م میں بیٹھے ہوئے 58 برس کے باب وولمر کے پاس بھی اس شکست کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یہ ان کے کرکٹ کوچنگ کیرئیر کی ایسی ہار تھی جس نے انہیں ذہنی طور پر خاصا منتشر کردیا تھا۔

پاکستانی کھلاڑی ابھی اس بڑے صدمے اور غم سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ اگلی صبح یعنی اٹھارہ مارچ کو انہیں وہ بری خبر ملی جس نے ان کے پیروں تلے سے زمین نکال دی۔ ان کے ہر دلعزیز اور محبوب کوچ باب وولمر اب اس دنیا میں نہیں تھے۔ جمیکا کے ہوٹل روم کے باتھ روم میں وہ مردہ حالت میں ملے تھے اور ان کی مشکوک موت کے بعد پاکستانی ٹیم پر شک کی نگاہیں ایسی تھیں جس نے ہر کھلاڑی کو سہما کر رکھ دیا تھا۔

باب وولمر پاکستانی ٹیم کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے پرستاروں کے لیے بھی ایک قابل عزت مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ اس وقت سنبھالی تھی جب جاوید میاں داد کو کوچنگ سے ہٹایا گیا تھا۔ پروفیشنل کوچ باب وولمر کا جنم تو غیر منقسم ہندوستان کے وقت کان پور میں ہوا تھا لیکن پھر ان کا گھرانہ واپس انگلستان چلا گیا، والد کلیئرنس وولمر خود کرکٹر تھے جنہوں نے رانجی ٹرافی میں بھی حصہ لیا۔ اب والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے باب وولمر نے بھی کرکٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔

باب وولمر نے انگلش ٹیم کی جانب سے کھیلا اور پھر چند ہی برس بعد انہوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے نہیں، اس کے گُر بتانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ باقاعدہ ٹریننگ اور کورس مکمل کرنے کے بعد وہ مختلف کاؤنٹی ٹیموں کے کوچ رہے اور پھر جنوبی افریقا کے کوچ بنے تو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنا پر اس ٹیم کو بلندی پر لے گئے۔ کچھ ایسا ہی انہوں نے پاکستانی ٹیم کے لیے بھی کیا۔ کوچنگ کے ساتھ ہی ان کی شخصیت کا ایک مخلص اور دوستانہ روپ ایسا تھا جس نے انہیں پاکستانی ٹیم کے اور قریب کردیا۔

باب وولمر ہر پاکستانی کھلاڑی کے دل میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی ملنساری، شفقت اور دوستانہ روش کی بنا پر باب وولمر پاکستانی ٹیم کے محبوب ترین کوچ کا درجہ رکھتے تھے۔ کئی کھلاڑی تو انہیں باپ جیسا رتبہ دیتے اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ یاغصے کو بھی اپنے لیے بھلائی جان کر چوں بھی نہیں کرتے۔ لیکن اب انہی کھلاڑیوں کو جب یہ خبر ملی کہ باب وولمر کی شفقت کا سایہ ان سے اٹھ گیا ہے تو کئی کھلاڑی دھاڑیں مار ما رکر رو رہے تھے۔

پاکستانی کھلاڑی دہرے صدمے سے دوچار تھے۔ اُس پر ویسٹ انڈیزکی جمیکا پولیس نے اپنی شک کی سوئیاں پاکستانی کھلاڑیوں کے گر د ہی پھیلا دی تھیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے یہاں انتہائی منفی کردار ادا کیا اور وہ وہ داستانیں سنانا شروع کیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ کہا تو یہ بھی گیا کہ باب وولمرکو سٹے بازوں نے اس لیے جان سے مار دیا کیونکہ آئرلینڈ سے شکست کے بعد ان کی کروڑوں کی رقم ڈوب گئی تھی۔

ایک کہانی یہ بھی سنائی گئی کہ پاکستانی ٹیم نے خود باب وولمر کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ یہی نہیں بلکہ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ باب وولمر کو زہر دیا گیا ہے۔ اور تو اور ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں باب وولمر سے گفتگو کرتے دکھائی دینے والے پاکستانی صحافیوں عبدالماجد بھٹی اور احسان قریشی کو سٹے باز قرار دے کر بھارتی ذرائع ابلاغ نے خوب جھوٹی سچی کہانیاں گھڑیں۔ اصل حقیقت سامنے آنے پر بھی بھارتی ذرائع ابلاغ کی ڈھٹائی برقرار رہی۔

بہرحال اس سارے فسانے کا یہ اثر ہوا ہے کہ جمیکا پولیس پاکستانی کھلاڑیوں سے سختی کے ساتھ پیش آنے لگی۔ پولیس ہر کھلاڑی سے الگ الگ تحقیقات کر رہی تھی۔ خواہش یہ تھی کہ اپنی مطلب کی کوئی بات نکل آئے۔ لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کا اس سارے واقعے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اورسب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ اسی بنا پر تحقیقات میں کوئی قابل گرفت بات سامنے نہ آسکی۔

اس کہانی میں اور سنسنی اس وقت آئی جب پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ایرسیشاجا، جن کا تعلق بھارت سے تھا، نے پیشہ ورانہ بد دیانتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ رپورٹ تیار کی کہ موت کی وجہ گلا گھونٹ کر دم گھٹنے سے ہوئی۔ ان کے اس بیان نے جیسے پاکستانی کھلاڑیوں کو اور مشکل میں ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے کی شفاف چھان بین کے لیے سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام اور میر زبیر پر مشتمل 2 رکنی ٹیم جمیکا روانہ کی۔ جس نے اپنی تحقیقات میں کئی اہم نکات اٹھائے۔ ان میں یہ بھی تھا کہ ہوٹل انتظامیہ نے موت کو ہوٹل میں ظاہر نہیں کیا، جس وجہ سے کرائم سین کو محفو ظ نہیں کیا جاسکا، لہذا ہوٹل انتظامیہ کو بھی شامل تفیش کیا جائے۔

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو کرائم سین کے تناظر میں دیکھا گیا۔ ہوٹل کی سی سی ٹی وی میں کہیں بھی کوئی شخص باب وولمر کے کمرے میں آتے یا جاتے ہوئے دیکھا نہیں گیا۔ پھر کمرے میں کہیں بھی تشدد یا دھینگا مشتی کے آثار نہیں ملے۔ کیسے ممکن ہے کہ بھاری بھرکم باب وولمر پر کوئی اس قدر آسانی سے قابو پالے کہ وہ مزاحمت بھی نہ کرسکیں۔ دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ باب وولمر کی لاش باتھ روم میں کچھ اس طرح ملی کہ ان کی پیٹھ دروازے کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ پاکستانی تفتیشی ٹیم نے سوال اٹھایا کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انہیں مار کر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور لاش بھی دروازے کے ساتھ ٹکی رہی۔ ان سوالوں کا جواب پوسٹ مارٹم کرنے والے بھارتی ڈاکٹر کے پاس نہیں تھے۔

پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے یہ ثابت کیا کہ باب وولمر قتل نہیں ہوئے بلکہ ان کی موت طبعی تھی۔ اس بات کی تصدیق ایک اور پوسٹ مارٹم کے ذریعے ممکن ہوگئی جس کو باب وولمر کے اہل خانہ نے بھی تسلیم کیا۔ باب وولمرہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا تھے۔ پاکستانی ٹیم کی آئر لینڈ جیسی ٹیم سے ہار نے انہیں خاصا دل گرفتہ کیا اور وہ غسل خانے میں اٹیک کے باعث زندگی سے محروم ہوگئے۔

باب وولمر کو گزرے 17 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہر جڑا شخص یا کھلاڑی آج بھی انہیں بہترین الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ 3 سال قبل  انضمام الحق کے اس بیان نے ہلچل مچا دی تھی کہ باب وولمر نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ انضمام الحق کے مطابق ویسٹ انڈیز میں باب وولمر نے نیٹ پریکٹس کے دوران پوچھا تھا کہ مسلمان ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا، پاک ہونا اور کلمہ پڑھنا ہوتا ہے۔ جس پر مشتا ق احمد نے کلمہ پڑھنا شروع کیا تو باب وولمر نے کہا کہ آہستہ پڑھو، انہوں نے بھی پڑھنا ہے اور یوں باب وولمر نے بھی دھیرے دھیرے کلمہ پڑھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp