وہ غلطیاں جن سے آپ کا ویزا مسترد ہو سکتا ہے

پیر 18 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کا یورپ یا برطانیہ کا ویزا لگ جائے تاکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہوکر اپنی فیملی کی معاشی مشکلات دور کر سکیں۔ لیکن ہر کسی کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ اب بیرون ملک جانے کے لیے شرائط بہت سخت ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی بھی نہیں ہے کہ آیا ویزا حاصل کرنے کے لیے کون سے ضروری کام کرنا پڑتے ہیں۔

علی حیات (فرضی نام) کی خواہش تھی کہ اسے بیرون ملک کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تاکہ وہ وہاں پر منتقل ہو جائے۔ وہ مسلسل کوشش کر رہا تھا اور ایک دوست کی مدد سے بینک اسٹیٹمنٹ بنانے کے بعد برطانیہ کے ویزے کے لیے درخواست جمع کرائی۔ مگر تمام کاغذات پورے ہونے کے باوجود نہ صرف ان کی درخواست مسترد ہوگئی بلکہ آئندہ کے لیے پابندی بھی لگ گئی۔

صرف علی حیات کی نہیں بلکہ ماہانہ ایسی سینکڑوں ویزا درخواستیں مسترد ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ امیدواروں کی اپنی ہی غلطی ہے۔ جو درخواست دیتے وقت وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کرتے ہیں۔

‘دوست کی مدد سے بینک اسٹیٹمنٹ بنانے میں کامیاب ہوا’

علی حیات نے وی نیوز کو بتایا کہ بی ایس آنرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہا تھا اور دوست کی مدد سے برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ مگر وہاں سے آفر لیٹر حاصل کرنے کے بعد ویزا کے لیے اپلائی کرنے سے پہلے بینک اسٹیمنٹ ضروری تھی۔ انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ والد نے انہیں 30 لاکھ روپے دیے جو ویزا پراسیس اور یونیورسٹی فیس میں خرچ ہو گئے۔ جبکہ ایک دوست نے کچھ رقم لے کر بینک اسٹیٹمنٹ شو کرنے لیے رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں رقم شو ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دوست نے کہا۔ ’دیکھو اگر سفارتخانے سے رابطہ کیا گیا تو برانچ میں ہمارے دوست ہیں بول دیں گے کہ پیسے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں’۔

علی حیات کے مطابق جب ان کی درخواست مسترد ہوئی تو پتا چلا کہ بینک اسٹیٹمنٹ جعلی تھی اور اسی بنیاد پر ان پر پابندی بھی لگ گئی۔ ’میں برباد ہو گیا۔ شاید اب کبھی بیرون ملک تعلیم کے لیے نہیں جا سکوں گا‘۔

ویزا کنسلٹنٹ کے مطابق علی حیات پہلے امیدوار نہیں جن کا ویزا مسترد ہوا اور پابندی لگ گئی۔ اب یہ معمول کی بات بن گئی ہے۔

ویزا مسترد کیوں ہوتا ہے؟

زیاد شعیب برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں اور پشاور میں ویزا کنسلٹنٹ کے طور پر کنسلٹنسی چلا رہے ہیں۔

زیاد نے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ویزا پالیسی میں کافی سختیاں کی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے اب ویزا مسترد ہونے کے کیسز کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ویزا کے لیے امیدواروں کی شرح میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ’پہلے اگر 40 امیدوار آتے تھے تو اب 200 سے زیادہ آتے ہیں۔ ہر کوئی ملک چھوڑنا چاہتا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ویزا دراخوست دینے کا عمل کوئی بہت مشکل نہیں ہے، ہاں کچھ باتوں کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے اور غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ معمولی سے غلطی کی وجہ سے بھی آپ کا ویزا مسترد ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فارم پُر کرنے کے بعد 5 سے 6 بار چیک کرنا چاہیے، تاریخ پیدائش اور تعلیمی اسناد کی تفصیل درست ہونی چاہیے۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو ای میل کرکے دوبارہ تفصیل مانگ لیتے ہیں۔

جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں

زیاد کے مطابق ویزا پراسیس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ویزا پراسیس کے دوران آپ کی فراہم کردہ تمام تفصیل اور کاغذات کی تصدیق ہوتی ہے۔ کسی مرحلے پر بھی انہیں شک ہو جائے کہ معلومات درست نہیں یا غلط بیانی کی گئی ہے تو اسی وقت ویزا دراخوست کو مسترد کردیتے ہیں۔

بینک اسٹیٹمنٹ

زیاد نے مزید بتایا کہ ویزا پراسیس میں بینک اسٹیٹمنٹ سب سے اہم ہے۔ بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعے وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب آپ اُس ملک میں جائیں گے تو وہاں کے اخراجات کے لیے آپ کے پاس رقم ہے یا نہیں۔ اور بینک میں مخصوص عرصے کے دوران پیسے ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے پاس فیس یا دیگر اخراجات کے لیے رقم موجود ہے اور آپ واقعی تعلیم کے لیے ہی بیرون ملک جا رہے ہیں۔

زیاد نے بتایا کہ اکثر لوگ بینک اسٹیٹمنٹ میں دھوکہ دہی کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری معلومات نہیں لیتے اور کسی دوست یا بینک کے اسٹاف کے ذریعے اسٹیٹمنٹ بنا کر جمع کرا دیتے ہیں۔’آپ کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہر سفارتخانے کو آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی ہے اور وہ تصدیق کر سکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اکثر کیسز جعلی اسٹیٹمنٹ کی وجہ سے مسترد ہوتے ہیں۔

بیروزگاری اور غربت کے باعث ہر کوئی باہر جانا چاہتا ہے

زیاد نے کہا کہ امیگریشن کی نسبت اسٹوڈنٹ ویزا آسان ہے اور نسبتاً خرچہ بھی کم آتا ہے۔ جس کی وجہ سے باہر جانے کے خواہشمند نوجوان اسی ذریعے سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹوڈنٹ کو یو کے میں ہفتے میں صرف 20 گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہے جس سے وہ صرف کھانا اور کرایہ دے سکتا ہے۔ جبکہ ٹیوشن فیس ممکن نہیں۔

یو کے، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں کہاں ویزا آسانی سے ملتا ہے۔ اور ویزا مسترد ہونے کی خاص وجوہات کیا ہیں؟ یہ سب جانیے زیاد شعیب کی زبانی، اس ویڈیو میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp