سابق صدر رفیق تارڑ کے پوتے عطا تارڑ ویسے تو دوسری مرتبہ وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، مگر اصل وفاقی وزیر پہلی دفعہ ہی بنے ہیں اور وہ بھی وفاقی وزارتوں میں سے ایک اہم وزارت انھیں ملی ہے۔ بطور وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات ان کی کارکردگی اور رویہ ہی آئندہ کے لیے ان کے سیاسی قد کاٹھ کا تعین کرے گا۔
سابق صدر جسٹس رفیق تارڑ کی شہرت ایک دھیمے مزاج کے شخص کے طور تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت طویل سفر طے کیا۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ گکھڑ منڈی گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں پیر کوٹ سے اُٹھ کر صدرِ پاکستان کے عہدے تک پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ان کے تین بیٹوں، فاروق، ڈاکٹر عامر رفیق اور عرفان میں سے کوئی بھی سیاست میں نہیں آیا۔
رفیق تارڑ کے بیٹے ڈاکٹر عامر کی بیگم سائرہ تارڑ بھی اپنے والد افضل تارڑ کی سیاست کی وارث ہیں۔ رفیق تارڑ شریف فیملی کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ انھی کی درخواست پر عطا تارڑ کو شہباز شریف نے 2013 تا 2018 میں اپنی وازرتِ اعلیٰ کے دوران اپنے ساتھ بطور ذاتی معاون کام کرنے کا موقع دیا۔
عطا تارڑ نے یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی کر رکھا ہے۔ اپنی محنت سے انھوں نے پارٹی میں جگہ بنائی اورمسلسل سیاسی طور پر ترقی کرتے رہے۔ حمزہ شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران وہ پنجاب حکومت کے ترجمان اور وزیرِ قانون رہے۔ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی رہے۔
حالیہ انتخابات میں وہ لاہور سے ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ملک ظہیر عباس کھوکھر اور چیئر مین پی پی بلاول بھٹو بھی الیکشن لڑ رہے تھے۔ تحریک ِ انصاف کے مطابق تو ان کا امیدوار جیتا تھا۔ جب کہ بلاول بھٹو تیسرے نمبر پر رہے۔ الیکشن مہم کے دوران بلاول اور عطا کے درمیان کافی سیاسی گرما گرمی بھی رہی۔ بہر حال حتمی طور پر جیسے بھی این 127 لاہور سے عطا تارڑ ہی کامیاب قرار پائے۔
الیکشن کے بعد وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے لیے عطا تارڑ کا نام ہی گردش کر رہا تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا چونکہ الیکشن مہم کے دوران بلاول اور عطا کے درمیان تناؤ رہا تو موجودہ حکومت کا اتحادی ہونے کے باعث عطا تارڑ کی پیپلز پارٹی کی طرف سے مخالفت کی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، اور عطا تارڑ اطلاعات کے وفاقی وزیر بن گئے۔ مریم اورنگزیب کے مریم نواز شریف کے ساتھ پنجاب میں جانے بعد عطا تارڑ ہی اس وزارت کے مظبوط امیداور تھے۔
عطا تارڑ کے بھائی بیرسٹر بلال فاروق پچھلی دفعہ گھکڑ منڈی سے ایم پی اے تھے۔ عطا کی اپنی دلچسپی بھی ادھر سے ہی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے میں تھی۔ اور وہ گزشتہ کچھ برسوں سے حلقے میں بہت سرگرم بھی تھے۔ انھوں نے وہاں کئی ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں۔ مگر پارٹی کے لیے مسئلہ یہ تھا کا وزیر آباد کے اسی حلقے سے سابق پولیس افسر ذوالفقار چیمہ اور سابق ایم این اے جسٹس افتخار چیمہ کے بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ ن لیگ کے مظبوط امیدوار تھے۔ قبل ازیں بھی وہ اسی حلقے سے ایم این اے منتخب ہو چکے تھے۔ یہ خاندان بھی سیاسی اعتبار سے شریف خاندان کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے۔ لہذا عطا تارڑ کو لاہور سے الیکشن لڑانے کا فیصلہ ہوا۔ بلال فاروق نے اپنے سابقے حلقے سے اس دفعہ بھی ایم پی اے کا الیکشن لڑا مگر وہ تحریک ِانصاف کے امید وار سے ہار گئے۔
عطا تارڑ کے بارے عمومی رائے ایک تُند مزاج سیاسی رہنما کی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کسی فرد کا جو رویہ عمومی طور خامی یا منفی تصور کیا جاتا ہے، وہی رویہ دوسری شکل میں خوبی بھی تصور ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں وزرائے اطلاعات و نشریا ت میں عمومی طور پر دو طرح کے لوگ نمایاں ہوئے۔ ایک تو دلائل کے زور پر اپنا موقف واضح کرنے والے جیسا کہ مشاہد حسین سید، جاوید جبار، محمد علی درانی، قمر زمان کائرہ اور پرویز رشید۔ ایک ملاقات میں جب اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو کائرہ صاحب نے کہا کہ مشاہد حسین سید تو ہمارے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف تلخ زبان و بیان کے حوالے سے شیخ رشید احمد، ڈاکٹر فردوش عاشق اعوان، مریم اورنگزیب اور فواد چوہدری کا اس ضمن میں نام لیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے حالیہ تاریخ میں دو مثالیں بہت دل چسپ ہیں۔
ایک تو عمران خان کے دورِ حکومت میں تُند مزاج فواد چوہدری کو ہٹا کر دھیمے مزاج کے حامل شبلی فراز کو وزیرِ اطلاعات بنایا گیا مگر کچھ عرصے بعد فواد چوہدری کو دوبارہ یہ وزارت دے دی گئی۔ دوسری مثال میں مدلل گفتگو کرنے والے قمر زمان کائرہ کی جگہ سخت زبان و بیان کی مالک ڈاکٹر فردوس کو وزیر بنایا گیا مگر کچھ عرصے بعد کائرہ صاحب کو ہی وزارت واپس دے دی گئی۔
عطا تارڑ کے بارے میں بھی اپنے دادا کے برعکس ایک تُند مزاج سیاستدان کا تاثر ہے۔ کم از کم ٹاک شوز دیکھنے والے ناظرین تو یہی تاثر رکھتے ہیں۔ حالاں کہ ڈسکہ کے مشہور ضمنی الیکشن کے دوران کوریج پر گیا تو ایم این اے نوشین افتخار کے گاؤں آلو مہار میں عطا تارڑ سے ایک مختصر ملاقات ہوئی تو انھیں کافی معقول شخص پایا۔ بلکہ ٹی وی ٹاک شوز کے بر عکس وہ مثبت شخصیت کے مالک لگے۔
اصل میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی شکل میں مسلم لیگ (ن) کو جو چیلنج گزشتہ کچھ برسوں سے درپیش ہے اس کے مقابلے کے لئے تُند مزاج وزیرِ اطلاعات شاید مجبوری بھی خیال کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری سیاست کا چلن بن چُکا ہے جس میں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو دلائل سے جواب دینے کی بجائے شور ڈالیں اور مخالفین کا ٹھٹھا اڑائیں۔ مختصر یہ کہ بد تمیزی جو کسی ایک فریق کے نزدیک خامی ہے دوسرے کے نزدیک وہ خوبی ہے۔
پاکستان کے وزیر ِاطلاعات و نشریات بہت نامی گرامی سیاستدان رہ چُکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس عہدے پر فائز رہنے والے کچھ ناموں کا تذکرہ تو ہوا مگر مولانا کوثر نیازی، راجہ ظفر الحق، حامد ناصر چھٹہ، خالد کھرل جیسے نامور سیاستدان بھی اس وزارت کے مدار المہام رہ چُکے ہیں۔
ویسے تو یہ وزارت ہمیشہ ہی ایک امتحان گاہ رہی ہے مگر کچھ دور زیادہ مہارت اور کشٹ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل ایک طرف مضبوط حزبِ اختلاف کا مقابلہ کرنا ہے تو دوسری طرف مشکل حالات میں گورنمنٹ کا دفاع کرنا۔
پھر ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی جیسے ادارے ہیں جو ایک طرف تو سنہری تاریخ رکھتے ہیں تو دوسری طرف کئی اقسام کے بحرانوں کا شکار ہیں۔ اسی طرح اے پی پی جیسے بڑے ادارے کو سنبھالنا ایک چیلنج ہے۔ ریڈیو اور پی ٹی وی بھلے وقتوں میں زندگی کے ہر طبقہِ فکر کے لوگوں جیسے طالب عملوں، گلو کاروں، فن کاروں، علماء، اساتذہ، ہنر مندوں، شاعروں، اور ادیبوں کو مواقع دیتےتھے۔ یہ ایسے پلیٹ فارم تھے جہاں بہت معمولی خرچ پر عوام کی شمولیت ہوتی تھی اور لوگ ریاست سے ایک تعلق محسوس کرتے تھے۔ عطا تارڑ کو بطور وزیرِ اطلاعات و نشریات ان اداروں کی طرف ذاتی طور پر دھیان دینے کی ضروت ہوگی۔
اگر وہ ان اداروں میں دوبارہ جان ڈال سکے تو یہ ان کی قومی خدمت شمار ہوگی۔ دوسری طرف ان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ دلائل کے زور پر اپنی بات اور صلاحیتیں منوا کر مدبر سیاستدانوں، مشاہد حسین سید، قمر زمان کائرہ جیسے لوگوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں یا کہ تُند مزاج وزیر کے طور پر شہرت پاتے ہیں۔
عطا تارڑ صاحب فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے؟ لوگ آپ کے کام اور رویے سے یاد رکھتے ہیں، مگر وزارت ہمیشہ نہیں رہتی۔