آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب

بدھ 20 مارچ 2024
author image

ڈاکٹر راسخ الكشميری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک سعودی تعلقات کی بظاہر بنیاد 1951 میں شاہ عبد العزیز کے دستخط سے پڑی، مگر حقیقتاً ان تعلقات کی جڑیں پاکستان بننے سے قبل ہی مضبوط ہو چکی تھیں۔

یوں تو پاک سعودی تعلقات پر لکھنے والے اسے شاہ سعود کا دورہ کراچی سنہ 1940 سے ابتدا گردانتے ہیں، مگر اس سے بھی قبل ہند و حجاز  کی تاریخ میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہےکہ علامہ اقبالؒ نے شاہ عبد العزیز کی خصوصاً اس وقت حمایت کی تھی جب شاہ عبد العزیز نے حجاز میں اپنی حکومت قائم کی، اسی طرح علامہ اقبالؒ نے شاہ عبد العزیز کے متعلق فارسی میں ایک قطعہ بھی سُپرد قلم کیا تھا۔

یہ تعلقات کی وہ بنیادیں ہیں جو دن بدن مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو شاہ عبد العزیز کے علاوہ سعودی عرب کے تمام فرمانروا بشمول سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی ریکارڈ پر ہےکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بالاہتمام سعودی عرب کا دورہ کرتی آئی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے سے ہمیشہ قریب رہی ہیں۔

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ سیاسی تعلقات ہوں یا عسکری، یہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ پاکستان میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یا پھر نئے آرمی چیف کے آنے پر ترجیحاً پہلا دورہ سعودی عرب کا ہوتا ہے۔

آرمی چیف سید عاصم منیر پاک فوج کی زمام کار سنبھالنے کے بعد دوسری بار سعودی عرب پہنچے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کا پہلا دورہ جنوری 2023 کو عہدہ سنبھالنے کے 5 ہفتوں بعد کیا تھا۔

 حالیہ دورے کے متعلق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق  آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جدہ شہر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی، اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پاک سعودی تذویراتی تعلقات اور تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس ملاقات میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان، سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حمد الرویلی، سعودی معاون وزیر دفاع طلال عبد اللہ العتیبی، سعودی وزیر مملکت اور قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر مساعد بن محمد العیبان، جنرل انٹیلی جنس چیف خالد بن علی الحمیدان، نیز پاکستان میں سعودی سفیر نواف المالکی موجود تھے۔

پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق، میجر جنرل جواد طارق اور سعودیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی بریگیڈیئر محمد عاصم موجود تھے۔ ملاقات  میں علاقائی امن وسلامتی، دفاعی اور سیکیورٹی تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے وسیع تر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تاریخی برادرانہ اور مضبوط تعلقات ہیں، دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کےساتھ کھڑے رہے ہیں۔ انہوں نے ان تعلقات کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے تاکید کی کہ مستقبل میں بھی سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کےساتھ کھڑا رہےگا۔ آرمی چیف نے پاکستان کے لیے خیرسگالی کے جذبات پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

تاریخی طور پر اگر پاکستان اور سعودی عرب کے عسکری تعلقات کے حوالے سے طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض العسیری کےمطابق ’1960 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور 1972 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں مل کر کام کیا۔ سنہ 1969 میں اس وقت کے سعودی وزیردفاع اور ہوا بازی شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ کیا اور دوطرفہ دفاعی تعاون کو یقنی بنایا تھا۔ سنہ 1972 میں انہوں نے دوطرفہ سیکیورٹی تعاون کا معاہدہ کیا، جس کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کی عسکری تربیت اور دفاعی پیداوار کی صلاحیت بڑھانے میں مدد کی۔ سنہ 1989 میں جب عراق کے کویت پر حملے  سے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ پیدا ہوا، پاکستان نے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ بنتے ہوئے سعودی سرحدی علاقوں کے دفاع کی پہلی صف کا کردار ادا کرتے ہوئے فوج کی ڈویژن بھیجی‘۔

الغرض پاک سعودی تعلقات اپنی ماہیت میں لازم وملزوم ہیں، اور انہیں دن بدن مضبوط ہی ہونا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ ہم خلیج میں بالعموم، اور سعودی عرب میں بالخصوص بدلتی ہواؤں کا بغور جائزہ لیں کہ سعودی عرب برق رفتاری سے اپنے ’وژن2030‘ کی طرف رواں دواں ہے۔ اس بدلتی صورتحال میں  ہمیں بھی اپنی کشتی سیاسی گورکھ دھندوں سے نکال کر اقتصادی راہداری  کی طرف موڑ لینی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp