سینیئر صحافی و سماجی کارکن حسین نقی نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ تک پاکستان اور ہندوستان آنا جانا کوئی مشکل نہیں تھا، لوگ 1955 تک باآسانی آیا جایا کرتے تھے، لیکن اس کے بعد بارڈر پر مسائل شروع ہوئے تو آنا جانا مشکل ہوگیا۔ پھر ہم پاکستان میں رہائش پذیر ہوچکے تھے۔ پاکستان میں آکر نئے سرے سے تعلیم حاصل کی اور میڈیا کی طرف راغب ہوگیا۔ پھر ہم نے طالبعلم کے نام سے ایک اخبار شروع کیا جو کافی چلا۔
حسین نقی نے کہا کہ ایوب خان نے طالبعلموں کو بڑے فائدے دیے، جامعات میں اسٹوڈنٹس کیمپسز بنائے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور میں مجھے سزا بھی ہوئی اور میری اخبار کو بھی بند کر دیا گیا۔ جونیجو نے صحافیوں کے لیے پالیسی میں تھوڑی نرمی کی، بعد میں جب ضیاالحق کی حکومت آئی تو پھر سختیاں شروع کردی گئیں اس دوران بھی جیل جانا پڑا۔
آج کل تو اخبارات کا ٹرینڈ ہی بدل گیا ہے، ایکسکلوسیو خبروں کے بجائے صرف بڑے لوگوں کے بیانات ہی ہوتے ہیں، لوگوں نے میڈیا ہاؤسز اس لیے بنا رکھے ہیں کہ وہ اپنے باقی بزنسز اور ٹیکس بچا رہے ہیں۔ حسین نقی نے مزید کیا کہا دیکھیے اس انٹرویو میں