پاکستان مسلم ن کے قائد نواز شریف سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے باعث تنقید کی زد میں ہیں اور سیاسی مخالفین اسے قانون کی خلاف ورزی اور سرکاری افسران پر دباؤ ڈالنا قرار دے رہے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں اس سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان بھی جب سرکاری اجلاسوں میں بیٹھتے اور افسران کو ہدایات دیتے تو اسی طرح کی شدید تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں۔
سال 2013 میں جب پہلی بار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا میں حکومت قائم ہوئی اور عمران خان تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زیادہ تر وقت صوبے میں گزارنے لگے۔ چوں کہ وفاق میں پی ٹی آئی اس وقت اپوزیشن میں تھی اور عمران خان صرف رکن قومی اسمبلی تھے تو اس دوران وہ اسمبلی اجلاس سے زیادہ ترجیح صوبے کے معاملات کو دیتے تھے۔
‘میں اپ کو بریفنگ نہیں دے رہا’
خیبر پختونخوا میں حکومت بننے کے بعد عمران خان صوبے میں تبدیلی کے لیے پرعزم تھے اور اپنی ٹیم کے ساتھ سرکاری اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے۔
مزید پڑھیں
اُس دوران صوبے میں ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتیں اور شدید تنقید بھی کرتی تھیں۔
ان اجلاسوں کے اندرونی واقعات سے باخبر ایک سرکاری افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ شروع دن سے ہی عمران خان نے اہم میٹنگز میں شرکت کرنا شروع کر دی تھی۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے علاوہ عمران خان کے ساتھ پارٹی کے کچھ لوگ بھی ہوتے تھے۔ جو پارٹی منشور کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دیتے تھے جسے افسران پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر اجلاسوں میں پرویز خٹک خاموش رہتے حالانکہ عمران خان پیش رفت رپورٹ مانگا کرتے تھے۔
انہوں نے ایک اہم اجلاس کے دوران ناخوش گوار واقعے کا بھی ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اجلاس کے دوران ایک محکمے کے سکریٹری بریفنگ دے رہے تھے کہ عمران خان نے انہیں درمیان میں روکا اور سوال کیا۔
سیکریٹری کو عمران خان کا سوال کرنا اچھا نہیں لگا
پھر دوبارہ سوال پوچھا تو سکریٹری کو ان کے پوچھنے کا انداز اچھا نہیں لگا اور عمران خان کو منہ پہ کہہ دیا کہ وہ انہیں بریفنگ نہیں دے رہے بلکہ صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو دے رہے ہیں اور اگر کوئی کمی ہے تو وزیر اعلیٰ ہی پوچھ سکتے ہیں اورآپ وزیر اعلیٰ سے پوچھ لیں، جس پر کانفرنس روم میں مکمل خاموشی چھا گئی، تاہم پرویز خٹک نے حالات پر قابو کر لیا۔
عمران خان سرکاری اجلاسوں میں کیوں بیٹھتے تھے؟
محمد فہیم پشاور کے سینیئر صحافی ہیں، ان کے مطابق 2013 میں پہلی بار حکومت ملنے پر عمران خان پرجوش تھے اور کچھ نیا کرنے کی عرض سے تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے تھے۔
فہیم نے بتایا کہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں وہ ہر اہم اجلاس میں پارٹی سربراہ کی حیثیت سے بیٹھتے تھے۔ بریفنگ لیتے اور ہدایت بھی دیتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت عمران خان بھی تنقید کی زد میں آئے تھے ۔ محمد فہیم کے مطابق عمران خان کے پاس کرنے کو بہت کچھ تھا، وہ صوبے میں کام کرنا چاہتے تھے۔ کرپشن اور پولیس ریفارم پر کام کرنا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے ہی اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے اور خود ہدایات دیتے تھے۔
محمد فہیم نے بھی اجلاس کے دوران سرکاری افسر سے تلخی کا ذکر کیا اور کہا کہ عمران خان نے ان اجلاسوں میں خود شرکت کرکے ریفارمز ایجنڈے پر کام کیا۔
صحافی عارف حیات کے مطابق عمران خان خود کچھ نہیں کرتے تھے بلکہ پرویز خٹک کے ذریعے ہی کام کرواتے تھے اور ہر ترقیاتی کام کے افتتاح یا سنگ بنیاد رکھنے کے وقت آتے تھے۔
عمران خان افسران اور وزرا کی کارکردگی کا خود جائزہ لیتے تھے
عارف حیات نے پارٹی سربراہوں کے سرکاری اجلاسوں میں شرکت کو اہم قرار دیا۔ ان کے مطابق جب تک عمران خان صوبے میں آتے رہے حالات بہتر ہو تے گئے۔ سرکاری افسران میں بھی ڈر پیدا ہوا اور سرکاری افسران اور وزرا کی کارکردگی کا بھی وہ خود جائزہ لیتے تھے۔
’عمران خان ہو یا نواز شریف یا بلاول، اپنی حکومت میں انہیں اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہیے۔ اس طرح وہ اپنے منشور کے مطابق کام کو یعنی بنا سکتے ہیں۔ ‘
عارف حیات کے مطابق عمران خان اپنی حکومت کے پہلے 2 سال کافی تبدیلی لا چکے تھے۔ پولیس نظام میں بہتری آئی تھی، احتساب پر توجہ دے رہے تھے۔ سرکاری نوکریوں میں ٹیسٹ کا نظام متعارف کروایا۔
عارف حیات کے مطابق حالات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب عمران خان نے صوبے سے توجہ ہٹا کر وفاق میں نواز شریف کے خلاف سڑکوں پر آنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ احتجاج اور لانگ مارچ کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر اسلام آباد دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اس طرح وہ صوبے کو بھی مکمل بھول گئے تھے۔
نواز شریف پنجاب میں ہی اجلاسوں میں شرکت کیوں کر رہے ہیں؟
صحافی فہیم کے مطابق عمران خان اور نواز شریف کے وقت میں کافی فرق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پہلی بار حکومت تھی اور وہ تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے۔ان کے لیے میدان اوپن تھا۔وفاق میں ان کی حکومت نہیں تھی اور مقابلہ سخت تھا۔ انہیں ووٹرز کے اعتماد پر بھی پورا اترنا تھا۔
فہیم کے مطابق عمران خان اس وقت کچھ نیا کرنا چاہتے تھے، لیکن نواز شریف کی پوزیشن مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نواز شریف کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ’وہ(نواز شریف ) اس وقت غصے میں ہیں۔ وزیر اعظم بننے کی امید سے آئے تھے صرف رکن اسمبلی بن گئے، اس لیے غصے میں اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔‘
عارف حیات کے مطابق نواز شریف کی ترجیح ان کی بیٹی ہے جو پہلی بار وزیر اعلیٰ بنی ہے اور وہ ان کی رہنمائی کے لیے ہی شرکت کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کا فوکس پنجاب ہے اور وہ پنجاب پر مکمل کنڑول چاہتے ہیں۔ ’دیکھا جائے تو نواز شریف ابھی سے ہی الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ چاہے یہ الیکشن جب بھی ہوں۔ عارف حیات نے مزید کہا کہ نواز شریف وسیع تجزیہ رکھتے ہیں ان کی سرکاری اجلاسوں میں شرکت سے فائدہ ہو گا نقصان نہیں۔