سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے سپریم کورٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کافی تبدیلی آئی ہے اور اب وہ ازخود نوٹسز کی بھرمار والی عدالت نہیں رہی۔
اب مقدمات بھی اب ایک طریقے سے سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں جن میں پرانے چلے آرہے کیسز کو ترجیح دی جاتی ہے اس وجہ سے سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعتوں میں کافی کمی واقع ہوچکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف گزشتہ ادوار میں ہر معاملہ سپریم کورٹ میں لے جایا کرتی تھی اور پی ڈی ایم کی جانب سے کی گئی اکثر قانون سازی کو چیلنج کر دیتی تھی لیکن اب اس حوالے سے بھی ایک حیرت انگیز تبدیلی آچکی ہے جو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پی ٹی آئی سے متعلق چند ہی معاملات زیر سماعت ہیں۔
دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست
اگر بات کی جائے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے متعلق مقدمات کی تو گزشتہ روز ان کی جانب سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی جس میں انہوں نے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کو چیلنج کیا ہے۔
مزید پڑھیں
عمران خان نے استدعا کی ہے کہ غیر متعصب ججز پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر 8 فروری انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں۔
انہوں نے اپنے وکیل حامد خان کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کو معطل کیا جائے کیونکہ وہاں حکومتیں جعلی انتخابات اور دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہیں۔
کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف عمران خان کی اپیل
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے عام انتخابات میں این اے 89 اور 122 سے اپنے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں دائر کی ہوئی تھیں جن پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات دائر کیے پھر 18 مارچ کو بانی پی ٹی آئی نے ان اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کی جو کہ ابھی زیرالتوا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی ان کے سزا یافتہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے گئے تھے۔
قاسم سوری
پی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف انتخابی عذرداری کا مقدمہ سنہ 2018 سے چلا آ رہا ہے۔
قاسم سوری پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے سنہ 2018 کے انتخابات میں اپنی نشست دھاندلی سے جیتی تھی۔ الیکشن ٹربیونل نے 27 ستمبر 2019 کو قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا لیکن اس کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے حکم کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا تھا جس کا اب سنہ 2018 انتخابات کی معیاد کے خاتمے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
قیصرہ الٰہی
سابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الٰہی نے حلقہ این اے 64 کے انتخابی نتیجے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔
قیصرہ الٰہی نے استدعا کی ہے کہ انتخابی نتائج فارم 45 کے مطابق جاری کر کے انہیں کامیاب امیدوار قرار دیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے دی گئی ان کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
شیر افضل مروت کی درخواست
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے عام انتخابات کے نتائج کو 23 فروری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے الزامات پر بنائی گئی الیکشن کمیشن کمیٹی جبکہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبر الیکشن کمیشن کی تعیناتی کو بھی چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے آئینی درخواست دائر کر دی تھی۔
شیر افضل مروت کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کالعدم قرار دی جائے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام فارم 47 کالعدم قرار دیے جائیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے تشکیل دی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کو بھی کالعدم قرار دیا جائے، دھاندلی کے الزامات کی انکوائری کے لیے وزارتِ داخلہ کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا جائے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل روک دی جائے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ہر قسم کے احکامات جاری کرنے سے بھی روکا جائے۔