صوبائی اسمبلی بلوچستان سے 41 ووٹ حاصل کرکے سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما سرفراز بگٹی نے رواں ماہ کی 2 تاریخ کو وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب کا حلف اٹھایا تھا جس کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ ایک ہفتے کے دوران 19 اراکین پر مشتمل کابینہ اپنا حلف اٹھا لے گی لیکن 20 روز گزر جانے کے بعد بھی کابینہ کی تشکیل کا عمل شروع نہیں ہوسکا۔ جس پر سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ کیا صوبے کی 2 بڑی پارلیمانی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں یا کہانی کچھ اور ہی ہے۔
کابینہ سے متعلق سوال پر صحافیوں سے غیر روسمی گفتگو کرتے ہوئے نومنتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کابینہ جلد تشکیل دے دی جائے گی۔ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے اتحادیوں کے درمیان اختلافات نہیں، مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے جو فارمولا طے ہوا ہے اسی پر عمل ہوگا۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان وزراتوں سے متعلق کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کیونکہ وزراتوں کی تقسیم کا فیصلہ مرکز سے ہوا ہے جس پر بلوچستان کے اراکین اسمبلی نے بھی آمین کہا ہے۔ صوبے کی کابینہ 19 اراکین پر مشتمل ہے جس میں 14 وزیر اور 5 مشیر شامل ہونگے۔
’فارمولے کے تحت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 6-6 وزراتیں دی جائیں گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی کے حصہ میں 1-1 وزارت آئے گی۔ اس کے علاؤہ تمام اتحادی جماعتوں کے حصہ میں مشیر کا حصہ بھی شامل ہوگا، تاہم صوبے میں کابینہ کی تشکیل کا عمل اس لیے مکمل نہیں ہوسکا کیونکہ جماعتیں سینیٹ الیکشن کے انتظار میں ہیں سینیٹ الیکشن کے فوراً بعد 4 اپریل کو کابینہ کی تشکیل کا عمل بھی مرحلہ وار شروع ہو جائے گا‘۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی ہمشیہ سے بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں کے فیصلے اس صوبے میں نہیں کیے جاتے۔ دیگر صوبوں میں ایک ایک جماعت اقتدار میں ہے اس لیے کابینہ کی تشکیل کا معاملہ آسان رہا لیکن بلوچستان میں ہمشیہ کی طرح ایوان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے جو کابینہ کی تشکیل میں ایک رکاوٹ ہے جبکہ سینیٹ الیکشن بھی صوبے میں کابینہ کی تشکیل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اس وقت کابینہ کو اس لیے تشکیل نہیں دینا چاہتی کیونکہ اگر کسی رکن اسمبلی کو مناسب وزرات نہ ملی تو سینیٹ انتخابات میں اس کے پلٹنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور ایسے میں سیاسی بساط الٹ کر رہ جائے گی۔
سیاسی مبصرین کا مؤقف ہے کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں گزشتہ 2 سے 3 سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی پر ووٹ فروخت کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی، کیونکہ جیسے ہی وزراتیں ملیں گی اسی دن سے اراکین کی ناراضگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے تو ان ناراضگیوں سے بچنے کے لیے بلوچستان میں سینیٹ انتخابات سے قبل کابینہ کی تشکیل کا عمل شروع نہیں ہو سکتا۔