ہر دور میں عوام مہنگائی کے سامنے بے بس رہی۔ مگر پچھلے چند سالوں میں مہنگائی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو گیا ہے۔ مہنگائی کی اس تاریخی لہر کو روکنے کی سکت اس حکومت میں نظر نہیں آرہی۔ اور وفاق کی سطح پر کیے گئے معاشی فیصلوں کے اثرات براہ راست عوام پر مرتب ہو رہے ہیں۔
مہنگائی بڑھنے کے محرکات وہی ہیں اور حکومت کی طرف مہنگائی کو روکنے کے ہتھکنڈے بھی وہی ہیں۔ چھاپے، پرچے، گرفتاریاں۔ کوئی تحقیق یا منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں سمجھی جا رہی۔ ان چھاپوں اور گرفتاریوں کا الٹا نقصان ہوتا ہے کہ دکاندار چھاپوں کے ڈر سے اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت بند کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں گاہک کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور وہی اشیاء مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔
ہر حکومت نے منڈیوں میں آڑھت کے نظام کو بند کرنے کوشش ضرور کی مگر اس کے متبادل کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ بڑے آڑھتی ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جن اشیائے خورو نوش کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہو وہ انہیں سٹور کرلیتے ہیں تاکہ وہ بھرپور منافع کما سکیں۔
حکومت بڑے آڑھتیوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے کیوںکہ ساری حکومتی مشینری انہی سے رشوت کھاتی ہے۔ ایک ریڑھی بان سے لے کر آڑھتی تک، رشوت کے ریٹ مقرر ہیں اور ان رشوت خور افسروں اور اہلکاروں کو آج تک کوئی حکومت پکڑ میں نہیں لا سکی۔
ہر ریڑھی بان یا دکاندار کو مقامی انتظامیہ کی ہتھیلی گرم رکھنا پڑتی ہے تاکہ وہ کسی ایک سڑک کنارے پھل، سبزی بیچ سکے۔ اس کے علاوہ پولیس والوں کو بھی راضی رکھنے کے لیے انہیں پھل اور سبزیاں مفت میں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے لیے بھی انہیں اشیاء کے نرخ بڑھانا پڑتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پھل سبزیاں بیچنے والے دکاندار یا ریڑھی بان اپنے منافع میں سے ہی گھر کا سودا سلف خریدنا ہے جس کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔
یہ رشوت کا بازار کوئی مائی کا لعل ختم نہیں کراسکا۔ حکومت ایسے دکاندار یا ریڑھی بان کے خلاف جرمانے یا دکانیں سیل تو ضرور کرتی ہے مگر اپنے محکموں کو ٹھیک کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
تحریک انصاف کے دور میں سال کے آخر میں جب آٹا چکیوں پر قیمتوں میں اضافہ ہوا تو حکومت نے گندم کی اگلی کاشت پر بڑے بڑے آڑھتیوں اور گندم کا کاروبار کرنے والوں کو گندم کی فراہمی بند کردی تھی، نتیجتاً لاہور جیسے شہر میں گندم دستیاب ہی نہیں ہوسکی۔
بڑے بڑے گودام جو سال بھر چکیوں کو گندم کی ترسیل کا کام کرتے تھے انہیں بھی گندم نہ ملی۔ صوبے بھر میں انتظامیہ کو متحرک کیا گیا کہ گندم کا کوئی ٹرک بڑے شہروں میں داخل نہ ہونے پائے۔ حکومت کے اس ‘ایکشن’ نے حالات بہتر کرنے کی بجائے مزید خراب کردیے۔ آڑھتیوں نے انتظامیہ کو رشوت دے کر چوری چھپے شہر کے اطراف میں ٹرک منگوا کر خوب منافع کمایا۔
اس طرح حکومت کی پالیسی ناکام ہوگئی کیونکہ ترسیل کا کوئی متبادل انتظام کیے بغیر گندم کی فراہمی متاثر کی گئی جس سے خریدار ہی خسارے میں رہا۔ آج بھی پنجاب میں بے شمار گھرانے ہیں جو سال بھر کی گندم اور چاول گھروں میں سٹور کرتے ہیں۔
اس حکومت نے آغاز میں ہی شنید دے دی ہے کہ بڑھتی مہنگائی پر قابو پانا اس کے بس میں نہیں۔ مہنگائی کا طوفان تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران قرض لینے کے لیے تمام شرائط ماننے کو تیار ہے اور عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ قرض لیے بغیر ملک نہیں چل سکے گا۔
بدترین مہنگائی کے عالم میں حکومت نے غذائی اجناس کی برآمدات میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ امسال فروری میں غذائی اجناس کی برآمدات میں گزشتہ ماہ کی نسبت 35 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ وافر مقدار میں پیدا ہونے والا پیاز جو تقریباؑ ہر کھانے کا لازمی جزو ہے 50-60 روپے فی کلو تک فروخت ہوتا رہا۔ اور وہ حالیہ مہینوں میں 300 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر گیا کیونکہ بھارت نے الیکشن سال کی وجہ سے پیاز کی برآمد روک دی جس کی وجہ سے پاکستان کو لاتعداد آرڈر موصول ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی غذائی اجناس کی برآمدات 4 ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہیں۔
غذائی اجناس کی برآمدات نے مہنگائی میں پسے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے جن کی آمدن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ غریب آدمی تو پہلے ہی مر چکا تھا اب متوسط طبقہ بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں حکومتیں ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں عوام کی پہنچ میں رہیں۔ اس کے لیے وہاں غذائی اشیاء کی ترسیل کا نظام بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔
لاتعداد شاخوں والے بڑے بڑے سٹورز کو مقامی حکومتیں سہولتیں فراہم کرتی ہیں جیسے لیز پر سستی زمین جہاں وسیع پارکنگ بھی دستیاب ہو کیونکہ یہ سٹور بڑے پیمانے پر اشیاء سستے داموں خریدتے ہیں اور اسی طرح کم منافع رکھ کر فروخت کرتے ہیں۔ گاہک کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ ہفتے یا مہینے بھر کی اشیاء ضروریہ انہی سٹورز سے خریدے تاکہ وہ اپنے ماہانہ اخراجات میں مناسب بچت کرسکے۔
انہی ملکوں میں چھٹی کے روز مختلف علاقوں میں بڑی بڑی پارکنگ کی جگہوں پر بھی سستے بازار لگائے جاتے ہیں جہاں انتہائی مناسب ریٹس پر چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اب آن لائن شاپنگ نے وہاں عوام کو مزید سہولت فراہم کردی ہے کیونکہ آن لائن سٹورز میں بجلی، سٹاف اور دیگر اخراجات نہیں ہوتے اور وہ سستے داموں عوام کو اشیاء فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ چھوٹے دکاندار کم منافع رکھ کر سستی اشیاء بیچتے ہیں جب کہ بڑے سٹورز پر چیزیں زیادہ مہنگی بیچی جاتی ہیں۔ بڑے سٹورز اپنے اخراجات کا رونا روتے ہیں کہ انہیں ہر علاقے میں سٹور کھولنے کے لیے مہنگی زمین خرید کر سٹور کھولنا پڑتا ہے جس کے لیے انہیں بڑا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔
حکومت کے جاری کردہ سرکاری نرخوں پر عمل درآمد ناممکن سی بات ہے کیونکہ کسی چھوٹے علاقے میں دکاندار کم کرایہ ادا کرکے نرخ بھی کم رکھتا ہے جبکہ پوش علاقوں میں دکان کے کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے پھل سبزیاں زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہیں جہاں گاہک صاف ستھری اور اچھی کوالٹی کی اشیاء مانگتا ہے۔
حکومت رمضان میں سستے بازار لگا کر عوام کو عارضی طور پر ریلیف دینے کی کوشش ضرور کرتی ہے مگر کسی طویل دورانیے کی منصوبہ بندی کے بارے میں کبھی کوئی غور نہیں کیا گیا کہ ایسا سسٹم مرتب کیا جائے سرکاری مشینری استعمال کرنے کی بجائے سال بھر ہر علاقے میں لوگ سستے داموں گروسری خرید کر اپنے اخراجات میں کمی لا سکیں۔ جہاں سرکاری مشینری کا استعمال بڑھتا ہے، وہیں رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔