اپنے برطرفی کے وقت جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائیکورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر تھے اور اگر ان کو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی بنا پر برطرف نہ کیا جاتا تو وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنتے اور ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کے جج بھی بن سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے آج اپنے فیصلے لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کی برطرفی کی سفارش کرنے والے فیصلے میں کہیں واضح نہیں کیا کہ جسٹس صدیقی نے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے کن پہلوؤں کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس صدیقی کی برطرفی کی وجہ بننے والے الزامات
21 جولائی 2018 کو جسٹس صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایس آئی عدالتی کارروائیوں پر اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ وہی مقدمات کو مخصوص بینچوں کے سامنے لگواتی ہے، آئی ایس آئی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے کہا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 2018 کے انتخابات سے قبل جیل سے باہر نہیں آنا چاہیئں، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ ان کی مرضی سے بنایا جائے گا۔
جسٹس صدیقی نے تقریر میں کہا کہ وہ اس بندے کا نام بھی جانتے ہیں جو سپریم کورٹ میں پیغام رسانی کرتا ہے، احتساب عدالت کی ساری کارروائی کس جگہ رپورٹ کی جاتی ہے، اور احتساب عدالت سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا انتظامی کنٹرول کیوں ختم کیا گیا ہے تاکہ کوئی جج احتساب عدالت کی کارروائی نہ دیکھ سکے۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ انہیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ ان کی مرضی کا فیصلہ دیں اور بدلے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف زیرالتوا ریفرنس واپس لے لیا جائے گا۔
جسٹس صدیقی کو نوٹس
اس تقریر کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس لیتے ہوئے 31 جولائی 2018 کو جسٹس صدیقی کو نوٹس جاری کر دیا جس میں ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ جسٹس صدیقی نے شو کاز نوٹس کے جواب میں اپنا ابتدائی جواب 15 اگست 2018 اور پھر اضافی جواب 27 اگست 2018 کو جمع کروایا جس میں انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں اپنی کی گئی تقریر کے مندرجات کو من و عن تسلیم کیا۔
جسٹس صدیقی کی برطرفی وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے ہوئی
11 اکتوبر 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل نے چیئرمین میاں ثاقب نثار کی صدارت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کی سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا کنڈکٹ ایک جج کے خلاف ہے۔ اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو پیش کی گئی جنہوں نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرتے ہوئے جسٹس صدیقی کو عہدے سے برطرف کر دیا۔
جسٹس صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواستوں کو لٹکایا گیا
جسٹس صدیقی نے 26 اکتوبر 2018 کو اپنی برطرفی کے خلاف آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی لیکن اس پر آفس اعتراضات لگائے گئے اور درخواست کو نمبر نہیں لگایا گیا، جسٹس صدیقی نے ان اعتراضات کو چیلنج کیا اور 25 مارچ 2019 کو ان کی درخواست کو نمبر لگا دیا گیا۔
اس کے بعد اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن نے بھی درخواستیں دائر کیں اور کہا کہ جسٹس صدیقی کو انکوائری کے بغیر ہٹایا جانا درست نہیں۔ مقدمے کی 13 سماعتوں کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے فیصلہ جاری کیا کہ اس مقدمے کو جزوی سماعت مکمل کے طور پر اگلی بار 14 جون 2022 کو سنا جائے گا لیکن اس کے بعد ڈیڑھ سال اس مقدمے کو نہیں سنا گیا جس دوران جسٹس صدیقی نے جلد سماعت کی درخواستیں بھی دیں۔
اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی
موجودہ چیف جسٹس کے پاس یہ مقدمہ پہلی بار 14 دسمبر 2023 کو سماعت کے لئے مقرر ہوا، جنہوں نے فیصلہ دیا کہ اعلٰی عدلیہ کے کسی جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکتا اور اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آیا ہٹائے جانے سے قبل جسٹس صدیقی کے معاملے کی تحقیقات یا انکوائری کی گئی۔
تقریر کرنا کسی طور بھی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں: فیصلہ
سپریم کورٹ نے اپنے آج کے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار ہر شخص کا حق ہے، اور کوڈ آف کنڈکٹ ججز کو کسی بار کونسل یا کسی جلسے کو خطاب کرنے سے نہیں روکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے الزامات کی تحقیقات کیے بغیر، بنا انکوائری کیے، جسٹس صدیقی کو مِس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیا صرف اس وجہ سے کہ وہ معاملے کو عوام میں لے گئے تھے۔
اگر جسٹس صدیقی کے الزامات درست تھے تو ان کو سزا دینا غلط تھا کیونکہ انہوں نے اعلیٰ مناصب پر ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کی تھی۔ الزامات کی تحقیق بہت ضروری تھی اور حکومت پاکستان اور آرمی چیف نے بھی اسی بات کی درخواست کی تھی۔
جسٹس صدیقی کے جنرل فیض حمید پر الزامات اور سپریم کورٹ فیصلہ
موجودہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس صدیقی نے سنجیدہ الزامات لگائے تھے اور یہ صدر مملکت کو جمع کرائی جانے والی رپورٹ کا حصہ ہیں، جسٹس صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ اس وقت میجر جنرل فیض حمید جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے وہ اور ان کے کچھ ماتحت چند مقدمات میں مخصوص فیصلے چاہتے تھے جن میں سب سے اہم مقدمہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نیب سزاؤں کے خلاف اپیلوں سے متعلق تھا۔
اس کے علاوہ فیض آباد دھرنا کیس، بول میڈیا گروپ اور جعلی ڈگری معاملے سے جڑی ایگزیکٹ کمپنی کے مقدمات میں اپنی پسند کے فیصلے چاہتے تھے۔ اگر سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے کی انکوائری کرکے ثابت کرتا کہ جسٹس صدیقی کے الزامات درست نہیں تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ جسٹس صدیقی نے مِس کنڈکٹ کیا ہے، لیکن انکوائری کیے بنا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
جسٹس صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس محمد انور کاسی پر الزامات لگائے ہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی سے تحقیقات کرنے اور حلفیہ بیان لینے کے بجائے انہیں مسترد کردیا۔