آخر کیا وجہ تھی کہ مسلمانان برصغیر کو ایک الگ وطن کی ضرورت آپڑی تھی؟ کیا ضروری تھا 23مارچ 1940کا وہ عظیم الشان جلسہ اور پھر اس میں پیش کی جانے والی ’قرار داد پاکستان‘؟ ا ن سوالات کے جواب تلاش کیے جائیں تو کئی غور طلب پہلو روشن ہوتے ہیں۔ جیسے ہندوؤں نے انگریز سرکار کی آشیر باد حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کو ہر شعبے میں پس پشت ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی تھی۔ اسی کا اثر تھا کہ جداگانہ انتخاب اورعلیحدہ ریاست کا نعرہ لگایا گیا۔ پھر ہندوؤں کی پوری کوشش یہی رہی کہ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرایاجائے۔ جس پر مسلمانوں نے اپنے دفاع کی تحریک شروع کی۔
اس تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ مسلمانوں نے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جداگانہ انتخاب کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرایا۔ اسی عرصے میں ہندو مسلم فسادات نے اس خطے میں طویل خانہ جنگی اور کشیدگی کی فضا قائم کی۔ جس نے اس تاثر کو حقیقت کا رنگ دیا کہ ہندو اور مسلمانوں کو ایک ہی مقام پر یکجا کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1937سے 1939کے دوران کانگریس نے ملک کے بیشتر صوبوں میں وزارتیں بنائیں اور مسلمانوں کے خلاف وہ سخت گیر فیصلے اور اقدامات کیے کہ وہ مسلمان جو تقسیم اور الگ وطن کے مطالبے کے خلاف تھے وہ بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہونا شروع ہوگئے۔
اسی طرح سب سے بنیاد ی جز دو قومی نظریہ رہا۔ اس حقیقت کا اعتراف اقوام بھی عالم کرتی ہیں کہ اسلامی تہذیب منفرد اور مختلف ہے، جسے ہڑپنے کی ناکام کوشش کی جارہی تھی۔ تنگ نظر اور متعصب ہندو رہنماؤں کی جانب سے اسلامی تہذہب کا تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ بلکہ کئی تو ایسے تھے جو اسلام کو ہندو مت میں جذب کرنے کی بھونڈی چالیں چل رہے تھے۔ یہی وہ نکتہ تھا جو مسلمانوں نے ہر ایک کو باور کرایا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ مسلمان ایک منفرد قوم ہے جن کے پاس اپنا نظام زندگی، اقدار اور تہذیب ہے۔ یہ کسی صورت ہندو مت کے زیر اثر نہیں رہ سکتی۔
گو کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی کاوشوں کے نتیجے میں میثاق لکھنو کے تحت ہندو مسلم اتحاد قائم ہوا تھا۔ ہندو اکثریت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ مسلمانوں کا قومی تشخص ان سے مختلف ہے۔ اسی طرح میثاق لکھنو کے ذریعے ہی مسلمانوں سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ جداگانہ انتخاب اور قانون سازی کے لیے مسلمانوں کی مشاورت کو ترجیح دی جائے گی لیکن چند برس ہی گزرے تھے کہ ان سب وعدوں سے انحراف کا آغاز ہوگیا۔ بلکہ یہاں تک بلند و بالا دعوے اور اعلانات ہونے لگے کہ اب تو مسلمانوں کو ’محمڈن ہندو‘ بنا کر دم لیا جائے گا۔ اسی تناظر میں نہرو رپورٹ کے آنے سے مسلمانوں کو مستقبل کے خطرے کا احساس ہونے لگا۔ درحقیقت نہر و رپورٹ ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اس کے کچھ نکات میں ترامیم کی جائے لیکن یہ نہ ہوسکا۔ دراصل، نہرو رپورٹ برصغیر کی عوام کی نہیں بلکہ ہندوؤں کی عکاسی کررہی تھی۔ ان کے مفادات کے گرد ہی گھوم رہی تھی جس میں مسلمانوں کو یکسر نظر انداز بھی کیا گیا۔
اب یہی تمام وہ پہلو تھے جس نے مسلمانوں کے اندر الگ وطن کا شعور اجاگر کیا۔ بلکہ وہ اس راز کو جان چکے تھے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد متحدہ ہندوستان میں وہ ہندو قوم کے غلام ہی رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانان ہند کی تحریک صرف انگریزوں سے نجات پر ہی مبنی نہیں تھی بلکہ وہ آزادیحاصل کرنے کے بعد اب الگ وطن کے مطالبے پر بھی ڈٹے ہوئے تھے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ لاہور میں ہوئے اہم اور بڑے اجلاس میں جو قرار داد منظور کی گئی ا س میں کہیں بھی پاکستان کا نام شامل نہیں تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن ہندو کے زیر اثر ذرائع ابلاغ نے تمسخر اڑانے کی غرض سے اس قرار داد کو ’قرار داد پاکستان‘ کا نام دیا تو بانی پاکستان نے بھی بہادری کے ساتھ ا س نام کو تہہ دل سے قبول کیا۔ المیہ یہ ہے کہ غیر جانبداری اور باشعور ہونے کا دعویٰ کرنے والے موہن داس گاندھی کا کہنا تھا کہ مسلمان تقسیم کو قبول نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کا مفاد خود کو تقسیم سے روکے رکھے گا۔ دو قومی نظریہ درحقیقت ایک جھوٹ ہی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ تقسیم کے معنی ان لاتعداد مسلمانوں اور ہندوؤں کے کام و کاج کو تباہ کرنا ہے جنہوں نے صدیوں سے بطور ایک قوم ہندوستان میں رہنے کی کوشش کی۔
راج گوپال اچاریہ کا کہنا تھا کہ محمد علی جناح کا یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے 2بھائیوں میں ایک گائے کی ملکیت پر تنازعہ ہو اور وہ اپنی اس گائے کے 2 ٹکڑے کرکے اپنے اپنے پاس رکھ لے۔ اس پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کررکھا ہے۔ جس کے نقشے پر مسلم ہندو ستان اور ہندو ہندوستان پہلے سے ہی موجود ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس قدر شور وغل کیوں مچایا جارہا ہے۔ وہ ملک کہاں ہے جس کے ٹکڑے کیے جائیں گے اور وہ قوم کہاں ہے جس کی قومیت فنا ہونے کو ہے؟
پھر 23مارچ 1940کو لاہور کے تاریخی اجتماع سے خطا ب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ہندو دوست، اسلام اور ہندو مت کی حقیقی فطرت سمجھ کیوں نہیں پارہے؟ یہ محض ایک خواب ہی ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک یکساں قومیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔ ہندو اور مسلمان 2الگ مذہبی فلسفوں، معاشرتی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ 84سال پہلے جو اہم نکتہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اٹھایا تھا وہ ہر گزرتے سال کے ساتھ بار بار ثابت ہورہا ہے کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر قیام پاکستان کا فیصلہ درست تھا۔