انتخابات ہوئے مگر

اتوار 24 مارچ 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بچپن سے بس یہی سنا بلکہ سنایا گیا کہ فلاں ملک ہمارے مشکل دنوں کا ساتھی ہے، فلاں ملک نے ان ان دنوں ہماری مدد کی۔ دوسروں کی طرف دیکھنے والے اس غلامانہ سوچ نے ہمیں یہ سوچنے سے دور رکھا کہ ان سب نے ہماری مدد کی تو ہم کبھی کسی کی مدد کرنے کی پوزیشن میں کیوں نہ آ سکے؟ ہم بطور معاشرہ کبھی یہ نہ پوچھ سکے کہ دوستوں کی ان مہربانیوں کے بدلے ہم سے کیا لیا گیا؟

اس کا جواب ہمارے حالات ہیں جو یقیناً نازک ہیں۔ حالیہ برسوں میں جب ملک کے حالات خراب تر ہوتے جارہے تھے تو ہمیں بس ایک ہی امید تھی کہ بس یہ لوگ چلے جائیں اور اگلے اس گرتی ہوئی دیوار کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کندھا دیں گے لیکن بدقسمتی سے یہ بھی خوش فہمی نکلی۔

حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی یہی سوچ تھی کہ ٹھیک ہے انتخابات سے پہلے کچھ سخت اور سسٹم سے باہر اقدامات شاید ضروری ہوگئیں تھیں لیکن انتخابات کے اگلے دن سے مثبت چیزیں آنا شروع ہو جائیں گی مگر اگلے دن نے ثابت کیا کہ ہم صرف خوش فہمیاں پال سکتے ہیں۔ جس چیز نے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ یہ کہ ایک ایسے وقت میں بڑی کرپشن کی گئی جب سسٹم کو شفافیت کی سخت ضرورت تھی۔

شفافیت سے مراد صرف مینڈیٹ نہیں ہے بلکہ انتخابات بیچے گئے،جیسے سنجیدہ الزامات ایک نیا اور خطرناک رجحان سامنے لائے گا جو آگے مزید تقسیم کا باعث بنے گا۔ اس وقت خیبرپختونخوا میں حکومت تو بن گئی ہے مگر اس کے بعد جس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت کتنے عرصے تک چل سکتی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چلے گی بھی یا نہیں؟ وفاق میں بھی ملتے جلتے حالات دکھائی دے رہے ہیں البتہ وہاں اتنا ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت کو چلانے کی کوشش کی جائے گی جبکہ ملک کو دھکا سٹارٹ حکومت کے بجائے ایک مستحکم حکومت کی ضرورت تھی مگر اس ملک کے مفادات کے ساتھ طاقتوروں کے مفادات کا مقابلہ ہے اور یہ مقابلہ اتنا تلخ ہے کہ کسی ایک کو ہارنا ہوگا۔

حالیہ انتخابات میں پورے ملک کے برعکس ذاتی طور پر وزیرستان کے تینوں اضلاع کے انتخابات پر زیادہ نظریں تھیں کیونکہ یہاں سے محسن داوڑ اور علی وزیر نے پاکستان کی پارلیمانی سیاست بالخصوص پارلیمان میں فاٹا کی تاریخ کے برعکس اثرات چھوڑے ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر سے پہلے فاٹا کے پارلیمنٹیرینز کے حوالے سے بس ایک ہی سوچ پائی جاتی تھی کہ فاٹا کے پارلیمنٹیرینز وہیں ہوں گے جہاں اچھی بولی لگیں مگر پچھلے پانچ سال میں ان دونوں نے اس خیال کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا تھا۔

وزیرستان میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر سے علی وزیر نے پی ٹی آئی کے امیدوار زبیر وزیر کے ساتھ کلوز مقابلہ کیا لیکن جیت زبیر وزیر کی ہوئی البتہ شمالی وزیرستان این اے 40 پر محسن داوڑ کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ شمالی وزیرستان میں انتخابات سے لے کر اب تک احتجاج ہو رہے ہیں اور نتائج روکنے کی وجہ سے محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں کے احتجاج پر ہونے والی فائرنگ سے لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور محسن داوڑ بھی زخمی ہوئے لیکن نظام انصاف کا انصاف تو دیکھیے کہ متاثرہ لوگوں پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے گئے اور اب تک کاٹے جارہے ہیں۔

بعض ذرائع کے مطابق محسن داوڑ کے حوالے سے یہ بات طے تھی کہ ان کو ہر صورت اسمبلی سے روکا جانا ہے۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے اورنگزیب وزیر تھے لیکن رات کے اندھیرے میں اچانک فیصلہ بدل گیا اور تیسرے نمبر پر موجود مولانا صاحب کا قرعہ نکلا جس کے ووٹ تھے ہی نہیں۔ اب اگر اس طرح لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے گا تو کیا لوگ آپ کے لیے کوئی درست یا مثبت رائے رکھیں گے؟ بالکل نہیں البتہ ایک بات جس کو اخلاص کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سسٹم کا برداشت اتنا کمزور کیوں ہوگیا ہے جو 300 کے پارلیمان میں ایک دو مخالف آوازوں کو بھی برداشت نہیں کر پا رہا؟

ٹھیک ہے محسن داوڑ جیسے سیاستدان آپ کی سوچ کی نفی کریں گے لیکن یقین مانیں کہ اس وقت آپ کو ایسی ہی اختلافی آوازوں کی ضرورت ہے جو آپ کے سامنے بات کر سکیں اور آپ دنیا کو اپنی سیاسی آزادی کا ثبوت دے سکیں لیکن آپ نے یہ موقع ضائع کر دیا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اندرونی یکجہتی کی ہے اور اس کے لیے ضروری یہ تھا کہ سسٹم کو انسانی جذبات سے آزاد کرایا جاتا۔ کوئی ایک دو باتیں کرتا ہے اور اس کو تختہ مشق بنانے سے پیدا ہونے والا نقصاندور رس اثرات کا حامل ہوتا ہے اور اس وقت ہم وہی کررہے ہیں۔ ہندوستان میں مودی کی صورت میں ایک ہندؤ انتہا پسند کی حکومت ہے لیکن اس کی منفی سوچ کے باوجود سسٹم نے مودی کو کچھ حد تک  روک رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اس وقت دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی معیشت بن چکی ہے لہٰذا سوچئے گا ضرور۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp