یہ 1996 کی بات ہے ہمارے گاؤں میں ابھی نئی نئی بجلی آئی تھی اس لیے کسی کے گھر میں کوئی ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ لوگ ریڈیو پر خبریں اور کرکٹ میچ کی کمنٹری سنتے تھے یا ہفتے میں کبھی کبھار اگر گاؤں کا واحد دوکاندار شہر میں سودا سلف لینے جاتا تو اپنے ساتھ کوئی اخبار بھی لاتا۔ میں نے ان ہی دنوں اخبار کے رنگین صفحات پر شاہد آفریدی کے بارےایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ ہماری کرکٹ ٹیم میں ایک نیا کھلاڑی آیا ہے جس نے تیز ترین سینچری بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
عمران خان کیسا کھلاڑی تھا، کیسا کپتان تھا؟ اس کے بارے زرا بھی علم نہیں تھا کیونکہ جب سے ہم نے کرکٹ دیکھنا یا سمجھنا شروع کی اس سے کئی سال پہلے وہ ریٹائر ہوچکے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے گاؤں میں ٹی وی آنا شروع ہوگئے اور ہم نے براہِ راست کرکٹ دیکھنا شروع کی۔ گویا ہم نے جب سے کرکٹ دیکھنا شروع کی شاہد آفریدی تب سے کرکٹ میں جارحانہ مزاج بیٹنگ کے ساتھ اپنا نام پیدا کرچکے تھے۔ عمران خان، جاوید میانداد بلاشبہ لیجنڈری کرکٹرز ہوں گے لیکن چونکہ اپنے ہوش و حواس میں ہم نے تو شاہد آفریدی کو ہی کرکٹ کھیلتے دیکھا اور بہت سارے لوگوں کی طرح ہمارے بھی وہ آئیڈیل تھے۔
کہتے ہیں کرکٹ ایک بائی چانس یا قسمت کا کھیل ہے اور شاہد آفریدی نے کرکٹ کی اسی تعریف کی 100 فیصد صحیح ترجمانی کی۔ چل گئے تو بیڑا پار، نہ چلے تو پوری ٹیم کی ناؤ بیچ منجدھار چھوڑ کرچل دیے۔ لیکن جتنا عرصہ وہ بطور کرکٹر کھیلے انہوں نے اپنے مداحوں کو کرکٹ کی صورت میں بہترین انٹرٹینمنٹ فراہم کی۔ آفریدی کرکٹ میں ایک برانڈ بن گیا تھا جس نے جدید کرکٹ میں جارحانہ مزاج بیٹنگ کی داغ بیل ڈالی اور پوری کرکٹ کمیونٹی اور کرکٹ فینز اس بات کے معترف ہیں۔
بہت سے لوگ ان کی کارکردگی اور ان کی بیٹنگ اوسط کی بات کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بیٹنگ اوسط سے زیادہ میچ میں وہ کتنا اثر پیدا کرتے تھے چاہے وہ بیٹنگ ہو یا باؤلنگ وہ زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے بے شمار میچز جتوائے، 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جتوانے میں شاہد آفریدی نے نا صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ فائنل میں مین آف دی میچ تھے۔
بہرحال ان کی کرکٹ میں کیا خدمات تھیں یا کارکردگی کیسی تھی یہ کھیل سے شغف رکھنے والے بہتر جانتے ہیں۔ آج کل وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی ٹرول آرمی کے نشانے پر ہیں۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے اراکین کے علاوہ تحریک انصاف کے حامی صحافی بھی ان کے خلاف اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
کرکٹ میں ہمیشہ جارحانہ مزاج کے ساتھ بیٹنگ کرنے والا شاہد آفریدی سوشل میڈیا کی اس ٹرولنگ کی تپش برداشت نہیں کر پایا اور دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے نا صرف اپنے بارے صفائیاں پیش کیں بلکہ عمران خان کو اپنا ہیرو ماننے کا اعتراف بھی کیا۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹرولنگ ایک حقیقت ہے اور اس کی زد میں جب کوئی شخص آ جائے تو چاہے جتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہو ایک بار پریشر میں ضرور آتا ہے۔ شاہد آفریدی کے ساتھ بھی یہی معاملہ نظر آیا، ان کے خلاف جب ایک باقاعدہ منظم مہم سوشل میڈیا پر شروع ہوئی تو ان کے بیان سے نظر آیا کہ وہ اس ٹرولنگ کے دباؤ میں آئے ہیں۔
جہاں لوگ شاہد آفریدی کے خلاف ٹرولنگ کرتے نظر آئے وہاں بہت سے لوگ ان کے دفاع میں بھی سامنے آئے۔ عام صارفین کے علاوہ میڈیا، کرکٹ اور شوبز انڈسٹری کے لوگوں نے بھی سابق کرکٹر کا دفاع کیا۔ سب سے اہم بات پی ٹی آئے کے اندر سے ان کے کچھ کرتا دھرتا لوگ بشمول شیر افضل مروت اور علی محمد خان نے بھی آفریدی کا دفاع کرتے ہوئے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ورکرز کو ان کی ٹرولنگ نہ کرنے کی اپیل کی۔ تاہم یہ سوشل میڈیا ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے جس کی لگام اب فرد واحد کے ہاتھ میں نہیں۔ ہر کوئی اپنی ذات میں ایک لیڈر بنا ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ٹرولنگ اور سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کا علاج کیا ہے اور اس کا سدباب کیسے ممکن ہے۔ میں اولڈ اسکول اپروچ کا قائل ہوں اور میرے خیال میں جب تک اس طرح سوشل میڈیا ٹرولنگ میں ملوث لوگوں کو بھاری جرمانے اور سزا دے کر ایک دو لوگوں کو مثال نہیں بنایا جائے گا تب تک اس عفریت کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ ہتک عزت کے قانون میں مزید ترامیم کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ بھاری جرمانوں کے ساتھ ایسے کاموں میں ملوث لوگوں کو جب تک سزا نہیں دی جائے گی تب تک اس کا سدباب مشکل نظر آتا ہے۔