1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ اور عمران خان

پیر 25 مارچ 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیائے کرکٹ کا 5واں عالمی کپ 22 فروری سے 25 مارچ 1992 تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا تھا۔ ورلڈ کپ میں 9 ٹیموں نے حصہ لیا تھا اور فائنل سمیت کل 39 میچز کھیلے گئے تھے۔ پاکستان نے 32 برس قبل آج ہی کے دن فائنل میچ میں انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار رنگین وردیاں، سفید گیند، بڑی اسکرینیں اور فلڈ لائٹس (ڈے اینڈ نائٹس میچز) کا انتظام کیا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم پابندی اٹھائے جانے کے بعد پہلی مرتبہ عالمی مقابلوں کا حصہ بنی تھی۔ 1992 کے ورلڈ کپ میں معمر ترین کھلاڑی زمبابوے کے جان ٹریکوس (44 برس) تھے جبکہ سب سے کم عمر کھلاڑی پاکستان کے زاہد فضل (18 برس) تھے۔

پاکستان کی ٹیم عمران خان (کپتان)، عامر سہیل، عاقب جاوید، اعجاز احمد، انضمام الحق، اقبال سکندر، جاوید میانداد، معین خان (وکٹ کیپر)، مشتاق احمد، رمیز راجا، سلیم ملک، وسیم اکرم، وسیم حیدر اور نوجوان زاہد فضل پر مشتمل تھی جبکہ ٹیم کے کوچ انتخاب عالم تھے۔

عمران خان نے 92 کے ورلڈ کپ میں کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟

25 مارچ 1992 کو آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا فائنل میچ عمران خان کا آخری ایک روزہ بین الاقوامی (او ڈی آئی) میچ بھی تھا، یوں گریٹ عمران خان نے اپنے 22 سالہ کرکٹ کیریئر کا شاندار فاتحانہ اختتام کیا جو اس سے قبل کسی کرکٹر کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ آئیے جانتے ہیں کہ عمران خان اور دیگر کھلاڑیوں نے 92 کے ورلڈ کپ میں کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟

23 فروری 1992: پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز

پاکستان ٹیم کا سفر 23 فروری 1992 کو میلبورن سے شروع ہوا تھا، جہاں پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز سے 10 وکٹوں کی شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ کپتان عمران خان کندھے کی تکلیف کے باعث میچ نہیں کھیلے تھے اور کپتانی جاوید میانداد نے کی تھی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر 220 رنز کا ہدف دیا، جاوید میانداد 57 جبکہ رمیز راجا 102 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔ رمیز راجا نے پہلے ہی میچ میں سینچری اسکور کی جو کسی بھی پاکستانی کی ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی سینچری تھی۔

ویسٹ انڈیز نے 46.5 اوورز میں بنا کوئی وکٹ گنوائے بآسانی ہدف حاصل کرلیا تھا۔ وسیم اکرم سمیت کوئی بھی بولر وکٹ حاصل نہ کر سکا تھا۔ گریٹ برائن لارا ناقابل شکست 88 رنز بنا کر مردِ میدان قرار پائے تھے۔

27 فروری 1992: پاکستان بمقابلہ زمبابوے

پاکستان نے ہوبارٹ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں زمبابوے کو 53 رنز سے شکست دیکر 2 قیمتی پوائنٹ حاصل کیے تھے۔ پاکستان نے 50 اوورز میں 4 وکٹوں گنوا کر 254 رنز کا ہدف دیا تھا، عامر سہیل 114 اور جاوید میانداد 89 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ زمبابوے 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 201 رنز بنا سکا تھا۔ وسیم اکرم نے 3 جبکہ عاقب جاوید، اقبال سکندر اور سلیم ملک نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ عامر سہیل مین آف دی میچ قرار دیئے گئے جبکہ عمران خان نے محض کپتانی کی تھی۔

یکم مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ انگلینڈ

ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 13ویں میچ میں انگلینڈ کے خلاف پوری پاکستانی ٹیم 40.2 اوورز میں محض 74 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی تھی۔ انگلینڈ نے ایک وکٹ پر 24 رنز بنا لیے تھے اور اس کی جیت یقینی تھی کہ بارش کے باعث میچ ختم کرنا پڑا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا (یہی واحد پوائنٹ پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کی وجہ بنا تھا)۔ صرف 3 کھلاڑی ڈبل فگرز میں جاسکے، سلیم ملک اور مشتاق احمد نے 17،17 جبکہ وسیم حیدر نے 13 رنز بنائے تھے۔

بارش سے قبل کھیلے گئے 8 اوورز میں پاکستان کی جانب سے وسیم اکرم نے ’گراہم گوچ‘ کی بدولت واحد وکٹ حاصل کی تھی۔ اس میچ کی کپتانی بھی جاوید میانداد نے کی تھی جبکہ عمران خان ناسازی طبع کے باعث یہ میچ بھی نہیں کھیلے تھے۔

04 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ انڈیا

سڈنی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 16ویں میچ میں بھارت نے پاکستان کو 43 رنز سے شکست دی تھی۔ بھارت نے 7 وکٹوں پر 216 رنز کا آسان ہدف دیا تھا تاہم پاکستان کی پوری ٹیم 48.1 اوورز میں 173 رنز بنا سکی تھی۔ عامر سہیل 62 اور جاوید میانداد 40 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ سچن ٹنڈولکر 54 رنز ناٹ آؤٹ کے ساتھ مین آف دی میچ قرار پائے تھے۔ پاکستان کے کپتان عمران خان نے 8 اوورز میں 25 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کر پائے جبکہ بیٹنگ کرنے آئے تو 5 قیمتی بالز کا سامنا کرنے کے بعد بنا اسکور بنائے صفر پر رن آؤٹ ہو گئے تھے۔

08 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ

برسبین میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 22ویں میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 21 رنز سے شکست دی تھی۔ جنوبی افریقہ نے 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 211 رنز کا آسان ہدف دیا تھا۔ اینڈریو ہڈسن 54 رنز کے ساتھ نمایاں رہے اور مردِ میدان قرار پائے تھے۔ وسیم اکرم نے 42 رنز کے عوض 2 جبکہ عاقب جاوید، اقبال سکندر اور مشتاق احمد نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ پاکستان نے 21.3 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر 74 رنز بنائے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ میچ دوبارہ شروع ہوا تو پاکستان کو 36 اوورز میں 194 رنز کا ہدف دیا گیا، تاہم جاوید میانداد کے بغیر گرین شرٹس 8 وکٹوں پر 173 رنز ہی بنا سکیں۔

انضمام الحق 44 بالز پر 48 رنز بنا کر رنز آؤٹ ہوئے تو پاکستان کی امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے جونٹی رہوڈز نے خوبصورت ڈائیو کے ذریعے انضمام الحق وکٹیں اکھاڑ کر رن آؤٹ کیا تھا جو کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بہترین رن آؤٹ ہے۔ کپتان عمران خان نے 52 گیندوں پر 34 رنز بنائے جبکہ 34 رنز کے عوض 2 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔

11 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

پرتھ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 26ویں میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 48 رنز سے شکست دی تھی۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں کے نقصان پر 220 رنز بنائے، عامر سہیل 76 اور جاوید میانداد 46 رنز کے ساتھ نمایاں رہے تھے۔ آسٹریلیا کی ٹیم 45.2 اوورز میں 10 وکٹیں گنوا کر 172 رنز بنا سکی تھی۔

عاقب جاوید اور مشتاق احمد نے 3،3 جبکہ وسیم اکرم اور عمران خان نے 2،2 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ عامر سہیل کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا تھا۔ کپتان عمران خان نے 22 گیندوں پر 13 رنز اسکور کیے اور 32 رنز کے عوض 2 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

15 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ سری لنکا

پرتھ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 33ویں میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو 4 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6 وکٹوں کے نقصان پر 212 رنز بنائے تھے۔ مشتاق احمد نے 2 جبکہ عمران خان، وسیم اکرم، اعجاز احمد اور عامر سہیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔

پاکستان نے 49.1 اوورز میں 6 وکٹیں گنوا کر 216 رنز بنائے تھے۔ جاوید میانداد 57 جبکہ سلیم ملک 51 رنز کے ساتھ نمایاں رہے، شاندار بیٹنگ پر جاوید میانداد مردِ میدان قرار پائے تھے۔ کپتان عمران خان نے 69 گیندوں پر 22 رنز بنائے جبکہ 8 اوورز میں 36 رنز کے عوض ایک وکٹ بھی حاصل کی تھی۔

18 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ

کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے 34ویں میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 7 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ ٹورنامنٹ کی ناقابلِ شکست ٹیم نیوزی لینڈ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 48.2 اوورز میں 166 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی تھی۔ وسیم اکرم 4، مشتاق احمد 2، جبکہ عاقب جاوید، عامر سہیل اور عمران خان نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔

پاکستان نے 44.4 اوورز میں 3 وکٹیں گنوا کر با آسانی 167 رنز بنائے، رمیز راجا 119 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے، یہ ان کی ٹورنامنٹ کی دوسری سینچری تھی۔ دوسرے نمایاں بلے باز گریٹ جاوید میانداد رہے جنہوں نے 30 رنز بنائے تھے۔ مشتاق احمد 10 اوورز میں 18 رنز کے عوض 2 وکٹیں لیکر مین آف دی میچ قرار پائے۔ کپتان عمران خان نے بیٹنگ نہیں کی جبکہ 8 اوورز میں 22 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی تھی۔

پاکستان سیمی فائنل میں کیسے پہنچا تھا؟

آخری 3 میچوں میں لگاتار کامیابیوں کے بعد پاکستانی ٹیم کے 9 پوائنٹس تھے لیکن اس کے باوجود اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا مشکل تھا اور تمام تر نظریں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ورلڈ کپ کے آخری لیگ میچ پر مرکوز تھیں کیونکہ آسٹریلیا کے 6 اور ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے۔

ویسٹ انڈیز میچ جیت جاتی تو 10 پوائنٹس کے ساتھ پاکستان کو باہر کرتے ہوئے سیمی فائنل میں پہنچ جاتی لیکن میلبورن میں کھیلے گئے میچ میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو 57 رنز سے شکست دیکر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا تھا۔

پوائنٹس ٹیبل پر آسٹریلیا کے بھی 8 پوائنٹ ہو گئے تھے لیکن درحقیقت پاکستان کو وہ ایک قیمتی پوائنٹ سیمی فائنل میں لے گیا جو اسے انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ میں ’تحفتاً‘ ملا تھا۔

21 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ (پہلا سیمی فائنل)

ایڈن پارک، آک لینڈ میں کھیلے گئے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 7 وکٹوں کے نقصان پر 262 رنز بنائے تھے۔ وسیم اکرم اور مشتاق احمد نے 2، 2 جبکہ عاقب جاوید اور اقبال سکندر نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ پاکستان نے 6 وکٹوں کے نقصان پر 264 رنز بنا لیے تھے۔

انضمام الحق 37 گیندوں پر 60 جبکہ میانداد 57 رنز بنا کر نمایاں رہے تھے۔ انضمام الحق تیز ترین اور شاندار اننگز کی بدولت مین آف دی میچ قرار پائے۔ کپتان عمران خان نے 93 گیندوں پر 44 رنز بنائے جبکہ 10 اوورز میں 59 رنز دینے کے باوجود وکٹ حاصل نہیں کرسکے تھے۔

25 مارچ 1992: پاکستان بمقابلہ انگلینڈ (فائنل میچ)

حسن اتفاق تھا کہ پاکستان ٹیم کا سفر 23 فروری 1992 کو شکست کی تلخ یادوں کے ساتھ میلبورن سے شروع ہوا تھا لیکن اختتام سنہری یادوں کے ساتھ میلبورن میں ہی ہوا۔ پاکستان نے فائنل میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6 وکٹوں کے نقصان پر 249 رنز بنائے تھے۔ عمران خان 72 جبکہ جاوید میانداد 58 رنز کے ساتھ نمایاں رہے، تاہم انضمام الحق کے 35 گیندوں پر 42 رنز بھی یادگار اننگز تھی۔

انگلینڈ کی ٹیم 249 کے تعاقب میں 49.2 اوورز میں 227 رنز بنا کر آل آؤٹ ہو گئی تھی اور پاکستان 22 رنز سے فائنل جیت کر پہلی بار کرکٹ کے عالمی کپ کا فاتح قرار پایا تھا۔ وسیم اکرم اور مشتاق احمد نے 3، 3 جبکہ عاقب جاوید 2 اور عمران خان نے ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ کپتان عمران خان نے 110 گیندوں پر 72 رنز بنائے جبکہ 6.2 اوورز میں 43 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ وسیم اکرم شاندار بؤلنگ کے وجہ سے مین آف دی میچ قرار پائے تھے۔

پاکستان کی جانب سے نمایاں کارکردگی والے کھلاڑی

وسیم اکرم شاندار بؤلنگ کے وجہ سے نہ صرف فائنل میچ کے مین آف دی میچ قرار پائے جبکہ وہ 18 وکٹوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کے بہترین بؤلر بھی  تھے۔ نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو 456 رنز کے ساتھ ٹورنامنٹ کے بہترین بلے باز تھے تو پاکستان کے جاوید میانداد بھی 437 رنز کے ساتھ دوسرے اہم بلے باز تھے۔ مشتاق احمد نے 16 وکٹیں لیں جبکہ رمیز راجا نے بھی 2 سینچریوں کی بدولت 349 رنز اسکور کیے تھے۔

تاہم کپتان عمران خان اپنے موجودہ دعوؤں کے برعکس پورے ورلڈ کپ میں60.1 اوورز میں 251 رنز کے عوض 7 وکٹیں حاصل کر سکے جبکہ انہوں نے 351 گیندیں کھیل کر 185 رنز بنائے تھے، حالانکہ ایسی کارکردگی والے کھلاڑیوں کو وہ ’ریلوکٹا‘ قرار دیتے ہیں۔

1992 کا ورلڈ کپ شروع ہوا تو پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز نے دانت کھٹے کر دیے، انگلینڈ سے یقینی شکست بارش کے طفیل ٹلی پھر جنوبی افریقہ اور بھارت سے پے در پے شکستوں کے بعد زمبابوے سے ملی واحد فتح کے نتیجے میں راؤنڈ میچز میں 8 میں سے 5 میچ کھیلنے کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان سب سے نیچے اور صرف زمبابوے سے اوپر تھا۔

درحقیقت رمضان المبارک کی با برکت ساعتوں اور سحر و افطار کے وقت خشوع اور خضوع سے مانگی جانے والی اہل وطن کی دعاؤں کی بدولت فتح کے خواب کو حقیقت کی تعبیر ملی اور پاکستان دنیائے کرکٹ کا چیمپئن بنا۔ اہلِ وطن کو عالمی کپ کی 32ویں سالگرہ مبارک ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp