خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت پشاور شہر میں ٹریفک کے مسائل کے حل اور اچھی ماس ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لیے ایک بار پھر سٹی ٹرین منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔
وزیرا علی علی امین گنڈاپور گزشتہ روز پشاور کے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کے ساتھ پشاور میں ترقیاتی کاموں کے حوالوں سے سر جوڑ کر بیٹھے اور بتایا کہ صوبائی حکومت ٹرین منصوبہ کے لیے، جو بلڈ آپریٹ ٹرانسفر ماڈل پر چلائی جائے گی، نجی کمپنی کے ساتھ بات چیت کررہی ہے۔
ٹرین منصوبہ ہے کیا؟
سال 2013 میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پشاور شہر میں ٹریفک رش کو کم کرنے کے لیے ریلوے کے خالی ٹریک کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پرویز خٹک نے معاملہ اس وقت کی نواز شریف حکومت کے ساتھ اٹھاتے ہوئے ریلوے ٹریک کو استعمال کرنے کی اجازت مانگی، صوبائی حکومت کے خط کے جواب میں وفاقی حکومت نے انکار کرتے ہوئے ٹرین چلانے کے لیے ریلوے ٹریک استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔
پرویز خٹک کو جواب میں وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ وفاق پشاور تا لاہور ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنے پر غور کر رہا ہے لہذا اس بنیاد پر صوبائی حکومت کو اجازت نہیں دی جا سکتی، اس کے علاوہ چونکہ ریلوے ٹریک حساس مقامات مثلاً ایئرپورٹ سے بھی گزر رہے ہیں، لہذا اس بنیاد پر بھی اجازت نہیں دے جا سکتی ہے۔ پرویز خٹک نے وفاق کی جانب سے انکار کے بعد بی آر ٹی منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا تھا۔
پشاور چارسدہ مردان سٹی سرکلر ٹرین
سال 2018 میں دوسری بار صوبے میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو اس وقت وزیراعلیٰ محمود خان نے پشاور مردان اور چارسدہ میں سرکلر ٹرین چلانے کا اعلان کیا تھا، کئی مرتبہ اجلاس ہوئے، وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود بات فائلوں سے آگے نہیں بڑھی، اس وقت تحریک انصاف حکومت کا موقف تھا کہ ریلوے ٹریک اور خالی زمین کو استعمال کیا سکتا ہے۔
وفاق بڑی رکاوٹ
سینئر صحافی عارف حیات سمجھتے ہیں کہ سٹی ٹرین منصوبہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ وفاقی حکومت ہے، جو نہیں چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ شروع ہو، پرویز خٹک دور میں منصوبہ اس وجہ سے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ وفاق میں ن لیگ کی حکومت کو پی ٹی آئی کے احتجاج کا سامنا تھا۔
’وزارت ریلوے سے اس کی منظوری آسان نہیں ہے، دوسرے یہ کہ ریلوے ٹریکس پرانے ہیں اور کچھ حساس علاقوں سے بھی گزرتے ہیں، جو اس منصوبے کے احیاء میں بڑی رکاوٹ ہے۔‘
فنڈز کی کمی
صحافی فیضان حسین کے مطابق مجوزہ ٹرین منصوبے کے لیے خطیر فنڈز درکار ہوں گے اور اگر نجی کمپنی کے ذریعے بھی منصوبے عملدرآمد کی صورت میں بھی فنڈز درکار ہوں گے، انہوں پشاور بی آر ٹی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ پرویز خٹک حکومت نے منصوبہ شروع کرکے اعلان کیا تھا کہ حکومت اس منصوبے میں سبسڈی نہیں دے گی۔
’بی آر ٹی کے بارے میں بھی دعویٰ تھا کہ حکومت کا پر کوئی مالی بوجھ نہیں پڑے گا لیکن اب حکومت سالانہ اربوں روپے بی آر ٹی منصوبے کو چلانے کے لیے سبسڈی دے رہی ہے، وہ منصوبہ بین الاقوامی بینک سے قرضہ لے کر مکمل کیا گیا تھا، صوبائی حکومت کے پاس تنخواہوں کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اس منصوبے کے لیے کہاں سے لائے گی۔ ‘
سینئر صحافی عارف حیات کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے منصوبوں کو دیگر دوست ممالک کی مدد سے شروع کیا جا سکتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں مخلوط وفاقی حکومت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اس عوامی منصوبے کی اجازت دے گی؟