16 مارچ کو دہشت گرد حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے میرعلی میں حملوں کے جواب میں 18 مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں مذکورہ گروپ کے خلاف فضائی حملے کیے جس پر افغان عبوری حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور ان حملوں کو افغان خود مختاری کے منافی قرار دیا گیا تھا۔
اس پس منظر میں پاکستان کی وزارت تجارت کا ایک وفد سیکریٹری تجارت خرم آغا کی سربراہی میں کابل میں تجارتی امور کے بارے میں بات چیت کے لیے موجود ہے، جس میں پاکستان اور افغانستان کے مابین بارڈر کراسنگ پر سہولیات بڑھانے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
مزید پڑھیں
دونوں ممالک میں حالیہ خراب صورتحال کے پیش نظر بظاہر یہ ایک حیران کن پیش رفت ہے، پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو ملانے کے لیے افغانستان کی جغرافیائی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور افغانستان کے عوام بھی ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔
دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں؛ آصف درانی
پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تجارت و کامرس کا وفد افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور یہ ایک پہلے سے طے شدہ دورہ تھا، جس میں تجارت سے متعلق ہمہ جہت پہلوؤں پر گفتگو متوقع ہے۔
پاک افغان حالیہ تنازعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی دو سہیلیوں کا جھگڑا نہیں یہ دو مملکتوں کے درمیان کا معاملہ ہے اور اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلے بھی تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ بات چیت بھی جاری رہتی ہے۔
آصف درانی کے مطابق فی الوقت اس دورے کے نتائج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، ابھی رپورٹس موصول ہوں گی تو پھر اس کے بعد ہی اس بارے میں بات کرنا ممکن ہوگا۔
بھارت اور چین کے مابین تنازعات اور تجارت ساتھ ساتھ چلتی ہے، علی سرور نقوی
سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ تجارت کے بارے میں بات چیت ہونی چاہیے، ابھی تو بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا، بھارت اور چین میں بہت سے تنازعات ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی چلتی رہتی ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا گو کہ افغان عبوری حکومت تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اس طرح سے کارروائیاں نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہییں یا جیسا ہم چاہتے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان حکومت نے یہ صحیح قدم اٹھایا ہے، ایک سوال کہ جواب کہ آیا پاکستان کسی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں تو یہ بات چیت نہیں کر رہا، علی سرور نقوی نے کہا کہ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے اور افغانستان کے ساتھ تجارت بڑھنے سے پاکستان کو افغانستان میں زیادہ کنٹرول حاصل ہوگا۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں ہوئے، مسعود خالد
پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات منقطع تو نہیں ہوئے اور دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بھی کوئی پہلی بار نہیں ہوئی۔ ’جو وفد گیا ہے وہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے بارے میں بات چیت کرے گا باقی دہشت گردی کے حوالے سے ہماری سیکیورٹی فورسز کارروائی بھی کرتی ہیں اور بات چیت بھی، یہ متوازی سلسلہ چلتا رہنا چاہیے۔‘
مسعود خالد کے مطابق افغان طالبان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہییں جبکہ پاکستان کو گلہ ہے کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ ’۔۔۔لیکن اس کا اثر بہرحال تجارت پر نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ روزانہ سینکڑوں ٹرک آر پار آتے جاتے ہیں جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔‘