پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان بار کونسل نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اعلامیہ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات کی تحقیقات لازمی ہیں، عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
مزید پڑھیں
پاکستان بار کونسل نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایسے الزامات کی تحقیقات کا فورم نہیں ہے۔ الزامات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور اس کے خلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرے گی۔
پنجاب بار کونسل کا موقف بھی سامنے آ گیا
ادھر پنجاب بار کونسل کا ججز کی جانب سے لکھے گے خط پر موقف سامنے آ گیا ہے۔
پنجاب بار کونسل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا خط آزاد اور خودمختار عدلیہ کے وجود پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پیر عمران اکرم نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہائیکورٹ کے ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کا نوٹس لے۔
سیکریٹری پنجاب بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق بار کے عہدیداروں نے کہاکہ خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پنجاب بار کونسل ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور آئینی اداروں کے تحفظ کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں 6 ججز کا خط:سپریم کورٹ میں ججز کا فل کورٹ اجلاس ختم،اعلامیہ جلدمتوقع
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا تھا۔
ہائیکورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بھی بھجوائی گئی تھی، جبکہ خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا تھا۔