حال ہی میں مریم نواز نے جب ایک انٹرویو میں کچھ کتابوں کا ذکر کیا تو ان کے مخالفین کی باچھیں کِھل گئیں اور اُن پر پے درپے حملے کیے جانے لگے۔ اُن کا مذاق اڑایا گیا اور اس ٹھٹھول میں وہ بھی شامل ہو گئے جنہوں نے شاید ہی خود کوئی کام کی چیز پڑھی ہو۔
راقم مسلم لیگ کا کبھی طرف دار نہیں رہا۔ چاہے وہ مسلم لیگ کسی بھی حرف تہجّی سے تعلق رکھتی اور الف، بے، جیم ، نون کی طرح کسی بھی رنگ و نسل کی ہو۔ اس کے برخلاف جب مسلم لیگ نون کو ریاستی اداروں نے نشانہ بنایا تو اس کے خلاف زبان و قلم دونوں سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اس کالم میں سوال مسلم لیگ نون کی حمایت یا مخالفت کا نہیں بلکہ اس رویے کا ہے جس کا اظہار ہم اپنی علم دشمنی میں کرتے ہیں۔
مریم نواز کی سیاست سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں بُردبار اور باوقار رہنما کے طور پر اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ اُن کا مقابلہ کسی طرح بھی عمران خان جیسے نیم خواندہ شخص سے نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان کی گفت گو اور حرکتوں سے یہ بالکل واضح ہے کہ انہوں نے تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے علاوہ شاید ہی کوئی کتاب پڑھی اور سمجھی ہو۔ اس لحاظ سے مریم نواز بے نظیر بھٹو جتنی پڑھی لکھی نہ ہوں لیکن موجودہ سیاست دانوں کی کھیپ میں بہت سوں سے بہتر ہیں۔
اب آتے ہیں رہنماؤں کی کتاب پڑھنے کی عادت پر۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک میں غفار خان، غوث بخش بزنجو، حسین شہید سہروردی، محمود علی قصوری، ولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے پڑے لکھے رہنما ہوا کرتے تھے۔ اس فہرست میں رسول بخش پليجو، معراج محمد خان، حنيف رامے، معراج خالد ، پروفیسر غفور وغیرہ شامل کرلیجیے اور پھر اُن کا موازنہ آج کے رہنماؤں سے کیجیے تو مایوسی ہوتی ہے۔
لیکن پھر بھی ہمیں تحریک انصاف کے سوا دیگر جماعتوں میں کچھ پڑھے لکھے لوگ مل جاتے ہیں۔ اس میں غالباً پیپلزپارٹی کا پلڑا سب سے بھاری ہے جس میں شیری رحمان، رضا ربانی، تاج حیدر، فرحت اللہ بابر جیسے لوگ شامل ہیں۔ پھر مسلم لیگ نون میں بھی مصدق ملک، شاہد خاقان عباسی، پرويز رشيد اور مفتاح اسماعيل جیسے لوگ ہیں جو بلاشبہ پڑھے لکھے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں اگر تحریک انصاف پر نظر ڈالی جائے تو فیصل واوڈا، شہریار آفریدی، امین گنڈا پور، فیاض الحسن چوہان اور دیگر ’نابغۂ روزگار‘ نظر آتے ہیں جن کا پڑھنے لکھنے سے دور کا بھی واسطہ معلوم نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ شیریں مزاری اور اسد عمر جیسے لوگ جو نسبتاً پڑھے لکھے لوگ تھے وہ بھی ویسے ہی ہوگئے۔
فارسی میں کہتے ہیں ’ہر کہ درِ کانِ نمک رفت نمک شُد‘ یعنی جو بھی نمک کی کان میں گیا وہ خود بھی نمک بن گیا۔
مریم نواز نے جن کتابوں کا تذکرہ کیا ان کے مصنفین میں پاؤلو کوئیلو اور ایلف شفق جیسے نام شامل ہیں، جن کو عالمی ادب کے بڑے شہ پاروں میں شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بیسٹ سیلر ضرور ہیں اور ایک دنیا نے ان کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ ان کے علاوہ اگر مریم یہ کہتی ہیں کہ انہوں نے جیل میں اردو فکشن اور شاعری کی کتابیں پڑھی ہیں تو اس میں شک کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے کیوں کہ مریم کی والدہ محترمہ کلثوم نواز خود ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ان کی ایک کتاب کا عنوان ہے ’رجب علی بیگ کا تہذیبی شعور‘ جو 1985 میں سنگ میل نے شائع کی مگر کبھی کلثوم نواز یا اُن کے خاندان نے اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا۔
مریم نواز پر ہونے والی تنقید میں صنفی امتیاز کا پہلو صاف نظر آتا ہے کیوں کہ پاکستان جیسے پدرسری معاشرے میں کسی خاتون رہنما کا اس طرح عوامی حمایت حاصل کرنا اور خود کو منوانا بہت کم مردوں کو بھاتا ہے۔ ہمارے ہاں مردوں کی اکثریت عورتوں کو گھر میں بند رکھنا چاہتی ہے اور اسے برابر کا مقام دینے پر تیار نہیں۔
ہمارے مرد زرتاج گُل جیسی واجبی عقل و شعور رکھنے والی خواتین کو تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو اور مریم نواز جیسی خاتون رہ نما ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں عورتوں کے لیے چادر و چار دیواری کی اصطلاح بڑے زور شور سے محض اس لیے رواج دی گئی کہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو خاتون ہونے کی بنیاد پر عوامی حمایت سے محروم کیا جا سکے۔ جنرل ضیاء اور ان کی فوجی حکومت کو اس معاملے میں جزوی کام یابی بھی ہوئی اور خود نواز شریف ان خواتین کے خلاف مہم چلانے میں پیش پیش تھے۔
مریم نواز ایک سلجھی ہوئی خاتون ہیں اور اُن کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسے میں انہیں مزید پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے بڑے رہنما مصروفیات کے باوجود پڑھنے لکھنے کے لیے وقت نکالتے تھے۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل سے زیادہ مصروف آدمی کون ہوگا جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کی قیادت کی اور اس کے باوجود وہ کئی کتابیں لکھنے میں کام یاب ہوئے۔ اُن کا علم اُن کی گفت گو سے جھلکتا تھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی علم دوستی کے باوجود بنیادی طور پر ایک نسل پرست رہنما ثابت ہوئے۔
پاکستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے بہت اچھی کتابیں تصنیف کی ہیں جن کے نام یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں تاہم مریم نواز کو وہ سب پڑھنی چاہیں۔ پھر اگر وہ پڑھ رہی ہیں تو اُن کو گفت گو میں بھی مزید نکھار لانے کی ضرورت ہے۔ صرف کتابوں کا نام لینے سے علم کا اندازہ نہیں ہوتا اس کا اثر رہنما کی گفت گو میں نظر آنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں کی گفت گو میں اُن کی علمیت جھلکتی تھی۔ ان دونوں رہنماؤں کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔
شریف خاندان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ان کے خاندان میں چالیس پچاس سال سے سیاست ہورہی ہے لیکن اب تک کوئی بھی سیاسی امور یا خارجہ پالیسی پر کتاب کیوں نہیں لکھ سکا۔
کلثوم نواز کی ادبی کتاب سے قطع نظر کیا نواز، شہباز، حمزہ، سلمان اور دیگر خواتین و حضرات میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ڈھنگ کی کوئی کتاب لکھ سکے؟ تاریخ میں رہنماؤں کے نام صرف اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے سے رقم نہیں ہوتے، اس کے لیے بہت کچھ پڑھنا لکھنا بھی پڑتا ہے۔ تاہم اس وقت شریف خاندان کی مکمل توجہ ماضی کی طرح اقتدار میں آنے اور اس اقتدار کو برقرار رکھنے پر مرکوز نظر آرہی ہے۔
ایسے میں بہتر ہوگا کہ نون لیگی قیادت اپنی اور اپنے کارکنوں کی سیاسی و علمی تربیت پر توجہ دے۔