اب سے قریبا 10 برس قبل جب ہم نے صحافت پڑھنا شروع کی تو ڈگری کا نام تک بدل چکا تھا۔ اب اس ڈگری کو ’ایم اے صحافت‘ نہیں بلکہ ’ایم ایس سی‘ ماس کمیونیکشن کہا جاتا تھا۔
اب تو زمانہ مزید بدل چکا ہے۔ اب یاران صحافت و مکتب اسے ’میڈیا اسٹڈیز‘، ’کیمونیکیشن اسٹڈیز‘ یا ‘ڈویلپمنٹ کیمونیکیشن‘ جیسے جدید ناموں سے جانتے ہیں۔ ہم نے اپنے ادارے میں نئی نسل کو صحافت پڑھانے کا ارادہ باندھا تو حکام بالا کو ڈگری کا نام ’بی ایس ماس کمیونیکشن‘ لکھ کے بھیج دیا تو انہوں نے فرمان صادر کیا کہ جناب آپ اپنا علم اپنے پاس رکھیں اور اس مضمون میں چار سالہ پروگرام کو ’بی ایس کیمونیکیشن اسٹڈیز‘ لکھا، پکارا اور سمجھا کریں۔
میں نے بطور صدر شعبہ سمجھانے کی کوشش کی کہ حضور! آپ کا سارا کورس صحافت اور ابلاغ عامہ کے عوامل اور نظریات پہ مشتمل ہے۔ جب کہ ابلاغ، ابلاغ عامہ سے زیادہ وسیع مضمون ہے۔ اس کے لیے کورس بھی ایسا ڈیزائن کرنا پڑے گا جو ابلاغ کے نظریات کو ڈسکس کرے نہ کہ صرف صحافت کے۔
ہمارا سمجھانا تو خیر بےکار گیا مگر ایک بات سمجھ آ گئی کہ ابلاغ اور صحافت کسی نہ کسی میڈیم کے محتاج ہوتے ہیں۔ اور میڈیم کے بدلتے ہی صحافت کے اصول و ضوابط بھی بدل جاتے ہیں۔ خبر کا زاویہ، پیش کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
خبر اور تجزیے کا مواد، الفاظ کا چناؤ اور زبان کا استعمال سب نیا ہو جاتا ہے۔ اخبار کا صحافی، نیوز چینل کے صحافی سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کا صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی سے ذرا ہٹ کے ہو گا۔
ایک اور بات جو بڑی زور سے سمجھ آئی اور نئے صحافیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا میڈیم پرانے میڈیم کو کھا جاتا ہے۔ اس کی زبان کھا جاتا ہے۔ اس کا لہجہ ہڑپ کر جاتا ہے۔مواد ڈکار جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ورکنگ جرنلسٹس کو بھی چبا جاتا ہے۔
اگر آپ کی عمر 30 برس سے کم ہے تو آپ کو اخبار یا پرنٹ جرنلزم کے چند ایک ناموں کے علاوہ کوئی صحافی یاد نہیں ہو گا۔ آپ کو ’کیپٹل ٹاک‘ تو یاد ہو گا مگر ’قلم کمان‘ شاید آپ کی یادداشت کا حصہ نہ ہو۔ حالانکہ ’قلم کمان‘ کے عنوان سے کالم بھی وہی حامد میر لکھتے ہیں جو ’کیپٹل ٹاک‘ کے نام سے ٹاک شو کرتے ہیں۔
اسی طرح ڈیجیٹل جرنلزم کے موجودہ زمانے میں آپ ان صحافیوں کے ناموں کو زیادہ پہچانتے ہیں جو آپ کے موبائل کی سکرین پہ زیادہ آتے ہیں۔ یا آپ جن کو زیادہ لائک یا فالو کر چکے ہیں یا آپ ان کی کوئی ویڈیو زیادہ دورانیہ کے لیے دیکھ چکے ہیں۔ گو کہ صحافتی میڈیم تو ہمیشہ سے تبدیل ہوتے آئے ہیں۔
صحافت اخبار سے ریڈیو، ریڈیو سے ٹی وی اور ٹی وی سے ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی گئی۔ مگر اب کی بار ایک باریک اور بہت واضع فرق نظر آرہا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے وہ صحافی کے وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ’ایکسکلوزو‘ یا ’سکوپ‘ دینا کلی طور پہ صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔
مگر ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی سے یہ انفرادیت چھین لی ہے۔ اب یہ ممکن ہے ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑے لڑکے یا لڑکی جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ انفرادی طور پہ کسی سوشل میڈیا ایپلیکیشن پہ اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا یا رہی ہے کے لائکس یا شئرز زیادہ ہوں۔
یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہو اور پیشہ ور صحافی کی نسبت زیادہ لوگوں پہ اثر انداز ہو رہا ہو۔ اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ابھی تک کسی ادارے نے اس کے لیے کوئی قانون بنانے کی زحمت نہیں کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خبر یا اطلاع پہ کسی کی اجارہ داری اصولی طور پہ درست ہے یا رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں ہی ہونی چاہیے تو ہر ذی شعور کا جواب ہو گا کہ نہیں خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو۔
ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پروا نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومتیں ’پی ٹی وی‘ تک اپنے بنا لیتی تھیں تا کہ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پہ اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔
آپ کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین سٹریم میڈیا سے بین کروا دیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس کی مقبولیت یا عوام تک رسائی میں فرق نہیں آیا۔ لہٰذا اس نئے میڈیم نے پیشہ ورانہ صحافت کا دھندہ تقریبا لپیٹ دیا ہے۔ یا وہ صحافی بقا پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔
آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بڑی شخصیات پہلے صرف صحافیوں کو انٹرویو دیتی تھیں اب تو ان کے لیے بھی میدان کھلا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کامیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔
ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافی سے زیادہ ہے۔ جب کہ ان میں سے اکثریت کا کوئی صحافتی پس منظر نہیں ہوتا۔ یعنی اب عوامی رائے پہ اثر انداز ہونے کی اجارہ داری صرف پیشہ ور صحافیوں کے پاس نہیں رہی بلکہ وہ جو کبھی سامعین، قارئین، ناظرین یا یوں کہہ لیجیے کہ ہوا کرتے تھے وہ اب نہیں رہے۔
اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پروا نہیں کرتے ہیں۔ انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین سٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔ جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیہ کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ صحافیوں کو کون روک سکتا ہے۔
صحافتی اقدار میں غیر جانبداری کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپ ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں۔ ہاں وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔ وہاں آپ کی اجارہ داری ہے جیسے آپ نے میڈیا پڑھانے والے اساتذہ کو کبھی پریس کلب میں گھسنے نہیں دیا اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کے لیے بھی گیٹ بند کر سکتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں کے لیے خبر بلکہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ خبر، تجزیے اور رائے سازی پہ اب آپ کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔