اس وقت کی سیاسی صورتحال پر قریب سبھی اہلِ بصیرت اداسی کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہیں۔ ابھی ملک میں جمہوری تسلسل کا بمشکل دوسرا عشرہ شروع ہوا ہے مگر سیاسی بحران جمہوریت تو دور کسی ایسے نظام کی تصویر کھینچ رہا ہے جو بکھرتے سمے سماجی، ثقافتی، نجی اور سرکاری ہر طرح کی اداراہ جاتی ساکھ کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے۔ عوام جو درحقیقت طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں فی الوقت مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کوئی فنکار ایسا فن کیوں نہیں تخلیق کرتا جو حقیقت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دے۔
بحران پہ نہ لکھنا ادبی بحران کا باعث
بحران کے دنوں میں تخلیق ہونے والا ادب کمال تاثر رکھتا ہے۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جو بد امنی کے وقت لکھی گئی نظموں کو مختلف سیاسی علامتوں کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ رومانوی تحریک کے بانی ورڈزورتھ کی نظم ‘لندن 1802’، شیلے کی ‘انگلینڈ 1819’ یا پھر ڈبلیو ایچ اودین کی ‘یکم ستمبر 1939’، یہ فن پارے بتاتے ہیں کہ بحران کے دنوں میں فن کار پر ایسی کیا گزرتی ہے جو عوام کی کہانی بیان کر جاتا ہے۔ اگر اس صورتحال میں ایسا ادب تخلیق نہیں ہو رہا تو ہم شدید ادبی بحران کا شکار بھی ہیں۔
زیر بحث موضوع اجتماعی خرد کی پہچان
دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ مباحث جاری رہتے ہیں جہاں لوگ اپنے فارغ وقت میں قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مختلف سماجی موضوعات پر جاری اس بحث کا معیار سماج کی حقیقی ترجیحات اور ان کا معیارات طے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایک ادیب ہوتا ہے اور دوسرا ناقد اور یہ دونوں اچھے ادب کی تخلیق سے سماج کے اندر مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں چند بڑے مباحث ہمیشہ سے پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ مسائل پسندیدہ موضوع بحث ہیں جو نان ایشو ہیں۔
بحث کے اصولوں نہ گفتگو کے سلیقے پہ بات ہو
منطق، تنقیدی فکر، زبان و بیان کا علم اور دلیل و برہان کے ساتھ شائستگی اور تحمل و بردباری بھی بحث کے اصول ہیں۔ منطقی مباحث میں آپ جتنی تہذیب یافتہ اور با اخلاق زبان استعمال کریں گے وہ اتنی ہی مؤثر ثابت ہو گی۔ بازاری اور گھٹیا زبان میں ہونے والے مباحث اور تنقید سماج کی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ توجہ کے حصول کی خاطر ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں فیس بک پر ایک شاعر کی نظم کے ٹکڑے پر چھڑی بحث اور اس کے معیار نے ہماری فکر کے معیار کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
معیاری ادب پر معیاری تنقید فکر سازی کا ذریعہ
اس پہ تنقید کرنے والی ایک خاتون دانشور نے مقدمہ قائم کیا کہ شاعر خواتین مخالف فکر کا حامل انسان ہے اور اس کی نظم انسانیت سے گری ہوئی ہے اور مرد و زن کی صریح تذلیل ہے۔ اس کے بعد ایک جم غفیر امڈ کر آیا، کوئی شاعر کے خلاف تو کوئی ناقدہ کے خلاف۔
شاعر نے پہلے تو چیلنج کیا کہ اگر خاتون دانشور کو شاعری کی سوجھ بوجھ ہے تو وہ ان سے بحث کر سکتی ہیں پھر ان کی وال پر کچھ قد آور شخصیات کی تحریریں نمودار ہوئیں۔ شاعر کا دفاع کرنے والوں کا ماننا تھا کہ نظموں میں نظریہ تلاش کرنا غلط ہے، پوسٹ ماڈرن ازم کے مطابق کلئیریٹی دھوکا ہے، اس لائن کا وہ مطلب نہیں جو لیا گیا تاہم یہ قابل تنقید ہے، شاعری دو جمع دو چار نہیں ہوتی اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کے سامنے سر تسلیم خم کر رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ادب ماروائے تنقید نہیں ہو سکتا
ادھر خاتون دانشور نے اپنے دفاع کے لیے کمر کس لی۔ اپنی وال کو اپنے دفاع میں لکھی تحریروں سے بھرنے لگیں۔ ساتھ ساتھ اپنی جوابی تحریروں میں شاعر کے ہم نواؤں کی جانب سے کی جانے والی منطقی غلطیوں کی نشاہدہی بھی کرتی رہیں۔ خاتون دانشور کی طرف سے اٹھائے گئے نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا دفاع کرنے والوں نے کہا کہ شاعری کو کسی کسوٹی پر پرکھنا جائز ہے، کچھ حدود و قیود لازم ہیں، شاعر نے انتہائی لغو بات کی ہے، ایک صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ شاعری تو ہے ہی بے کار کا شغل۔
الغرض ایک دو روز سوشل میڈیا پر دانشورانِ قوم اس نظم پر اپنی قیمتی آراء پیش کرتے رہے۔ جو بات زیادہ قابلِ غور تھی وہ یہ کہ آخر اتنے بڑے دماغ اس بحث کو سنجیدہ کیوں لیے بیٹھے ہیں۔ شاید کوئی حکمت پوشیدہ ہے جو ابھی تک عیاں نہیں ہو پائی۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ ادب تخلیق کر رہے ہیں اور ادب پر تنقید کرتے ہیں آخر وہ اتنے بے ادب کیوں ہیں کہ بحث انہی کے ہاتھوں بازاری اور گھٹیا زبان کی نظر ہو گئی۔
کچھ لوگوں نے شاعر کا نام بگاڑ کر اس کی نظموں کو نئے رنگ دے کر اپنی اپنی وال پہ ایسے پوسٹ کیا کہ وہ مزید غیر معیاری ہوتی چلی گئیں۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے خاتون دانشور پر کیچڑ اچھالا اور اسے شعر و ادب سے نابلد خواتین کے ایک ایسے گروہ کی علمبردار ٹھہرایا جس کے نزدیک دنیا میں مرد کا وجود باعثِ شرم ہے اور یہ خواتین عدم وجود کی اولین علت ہے لہذا مرد ذات کے وجود پر بحث کرنا ان کے لیے عین عبادت ہے۔ دوسری طرف شاعر کی نظم کے ٹکڑے کا خوب مذاق اڑایا گیا۔
بہار پر لکھیں مگر یہ بہار پھیکی ہے
یہ حالات دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ وہ ادب کب تخلیق ہو گا جو ہمیں بحران کے دنوں میں مسائل کے حل میں مدد دے گا؟ جو ہمیں اداسی اور مایوسی کے بستر پر آ کر جھنجھوڑے گا کہ پگلے اٹھ کر دیکھ تو سہی باہر بوٹے پھل رہے ہیں۔ چڑیاں گا رہی ہیں۔ بہار آئی ہے۔ ہم ادب پر وہ تنقید کب کریں گے جو ادب کو ادیب سے جدا کر کے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گی؟ ہم یوکرائن اور فلسطین کے بحران پہ نہیں لکھ سکے تو کوئی بات نہیں جو بحران ہماری گردن تک آ پہنچا ہے اس پہ کب لکھیں گے؟