پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ڈیڑھ ماہ قبل ہونے والے مذاکرات کے باوجود تاحال اسٹاف لیول تک کا معاہدہ ممکن نہیں ہوسکا۔
اسلام آباد میں آئی ایم ایف مشن کے پاکستانی وفد سے مذاکرات کے بعد پاکستان نے متعدد شرائط پر عملدرآمد کے لیے منی بجٹ بھی متعارف کروایا تاہم تاحال ایک ارب ڈالر کی رقم جاری نہیں ہوسکی۔
پاکستان نے سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے اٹھار فیصد اور لگژری اشیا ٹیکس کی شرح 25 فیصد تک کردی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیزل اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی بڑھا دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف سے ڈیل میں تاخیر پر اسحاق ڈار کیا کہتے ہیں؟
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی عالمی طاقت پاکستان کو اس کی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی سمیت اسٹرٹیجک اثاثوں پر کوئی فیصلہ لینے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ ہم اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کی اہمیت اور ذمہ داری سے مکمل آگاہ ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف معمول سے ہٹ کر معاہدے کے لیے سخت شرائط رکھ رہا ہے، آئی ایم ایف نے ہر جائزے کو نیا معاہدہ بنا دیا ہے‘۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے پر قوم سے کچھ نہیں چھپایا۔ جیسے ہی معاہدہ طے پائے گا تفصیلات سامنے لائیں گے‘۔
تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ’اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اور حکومت بھی اس معاملے کو حل کرنے میں کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی‘۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ’حکومت سیاسی پہلو پہلے دیکھتی ہے اور اقتصادی پہلو بعد میں دیکھتی ہے۔ دوست ممالک بھی ملک کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کی مدد نہیں کر رہے جب کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے‘۔
سابق مشیر خزانہ کے مطابق ’آئی ایم ایف کسی بھی نتیجے پر اس لیے نہیں پہنچ رہا کیونکہ اس وقت ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے لیکن انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ آئی ایم ایف اس وقت یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ الیکشن ہوں گے تو نئی حکومت معاہدوں پر عمل کرے گی یا نہیں؟‘
امریکا کا پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کا مشورہ
اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر انجم الطاف کہتے ہیں ’ایک بات واضح ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی حکومت پر اس وقت کوئی اعتبار نہیں کر رہا اور آئی ایم ایف کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے جو ڈیٹا رکھتا ہے اس پر انہیں یقین ہی نہیں کیونکہ وہ صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدود ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل نہیں کر پا رہا کہ سیلاب سے پاکستان کا جو نقصان ہوا ہے اس کے بعد معیشت کو کیسے سنبھالیں گے؟ کوئی بھی آپ کو قرض دیتا ہے تو وہ اپنی تسلی کرنے کے بعد ہی قرض دے گا اور موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کو حکومت کی معاشی اعتبار سے سنجیدگی کا ادراک ہے‘۔
ڈاکٹر انجم الطاف کے مطابق ’حکومت آئی ایم ایف کے سامنے کفایت شعاری مہم کا حوالہ دیتی ہے لیکن اس وقت حکومتی اخراجات میں کس حد تک کمی آئی ہے یہ سب کے سامنے ہے، صرف ڈیٹا سامنے رکھنے سے کوئی یقین نہیں کرے گا‘۔
اسحاق ڈار کا دفاعی اثاثوں سے متعلق بیان غیر ذمہ دارانہ ہے
ماہر معاشیات ڈاکٹر انجم الطاف کے مطابق ’ڈار صاحب کا سینیٹ میں بیان صرف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش ہے اور اس بات کو حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے استعمال کر رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے کبھی اس طرح کی شرائط نہیں رکھیں، اس وقت آئی ایم ایف کی جو شرائط ہیں وہ واضح ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سبسڈیز امیروں کو نہیں بلکہ براہ راست کمزور طبقے کو دی جائیں‘۔
آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے عوام پر بجلی گرا دی گئی
ڈاکٹر سلمان شاہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی شرط آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آئی ہے جس کا خدشہ اسحاق ڈار ظاہرکر رہے ہیں اور یہ ایک غیر مناسب بیان ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ کام نہیں ہے۔ یہ آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کر پا رہے اور اب اس طرح کے بیانات سے اپنی کوتاہیوں کو چھپا رہے ہیں‘۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ’اس وقت آئی ایم ایف یہ ضرور چاہ رہا ہے کہ جو معاہدہ موجودہ حکومت کرے اس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں تاکہ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے وہ اس پر عملدرآمد یقینی بنائے‘۔