ججوں کا خط اور چینیوں کا قتل

اتوار 31 مارچ 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ ہفتے منگل کا دن ہمارے لیے ایک ساتھ 2 دھماکے لے کر آیا۔ پہلا تو شانگلہ میں چینی باشندوں پر حملے والا اور دوسرا اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا خط، یہ خط والا معاملہ تو زرا نازک ہے اس لیے پہلے شانگلہ کے دھماکے پر بات کرتے ہیں۔

نہیں معلوم اس اندوہناک واقعے تک پاکستان میں لقمہ اجل بننے والے چینی شہریوں کی تعداد کیا ہوچکی ہے۔ یہ تعداد جتنی بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے۔ خیبر پختونخوا ہو یا صوبہ بلوچستان، پاکستان کے یہ دونوں خطے سی پیک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی دونوں علاقے ہمارے چینی دوستوں کے لیے نو گو ایریاز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے اور ہمارے آہنی بھائی کے آہنی اعصاب کا کھلا ثبوت ہے کہ اپنے 5 شہریوں کے قتل عام کے بعد بھی اس نے اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی، تزویراتی شراکت داری اور مشترکہ منصوبوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔ چین کا یہ عزم قابل قدر ہے اور اس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے لیکن اس خون ریز واقعے کے بعد ایک بار پھر ٹھہر کر یہ جائزہ لینے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہماری سرزمین پر ہمارے چینی دوستوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تھمنے میں کیوں نہیں آرہا؟

ایک نئی اور خوشحال دنیا کی تشکیل کے سلسلے میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور خطے کی بیشتر اقوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے منصوبوں کے خلاف ناپاک سرگرمیوں کی ابتدا تو اسی وقت ہو گئی تھی جب شاہراہِ دستور پر دھرنا دے کر چینی صدر کے دورہ پاکستان کی راہ روکی گئی، اس کے بعد مشترکہ منصوبوں کے خلاف بہیمانہ پروپیگنڈا اور سال 2018 سے 2022 تک مشترکہ منصوبوں کو مکمل طور پر منجمد کرکے اپنے ارادے کا اظہار کردیا گیا۔

یہ سب باتیں اب تاریخ ہیں اور انہیں قومی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست نہایت سنجیدگی کے ساتھ چند عوامل کا تعین کرکے ایک واضح لائحہ عمل اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت آپریشن شروع کرے۔ آپریشن کے لفظ سے چونکنے کے بجائے اس کی ضرورت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یوں یہ معاملہ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کی طرح سے لگتا ہے جن میں ریاست کے اندر یکایک کارروائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور ان کا دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی سرا پکڑنا ممکن نہیں رہتا۔ پھر مصنف کا جاسوس علی عمران حرکت میں آتا ہے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مجرموں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ کئی برس گزرنے کے باوجود ہمارا کوئی عمران ابھی تک ایسا کوئی سرا پکڑنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکا لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس جانب بڑے واضح اشارے کررہے ہیں۔

ان میں جو سب سے اہم اور بنیادی اشارہ ہے، اس کا تعلق اس عدم استحکام سے ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ چلیے اگر 2014 میں معاملہ صرف انتخابی بدعنوانی کا تھا تو 2018 کے بعد ملک میں استحکام کیوں نہیں آیا؟ حزب اختلاف یعنی پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علما اسلام سمیت دیگر تمام جماعتوں نے انتخابی نتائج کے سلسلے میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود عمران خان اور پی ٹی آئی کو تعاون کی پیشکش کی اور تجویز کیا کہ میثاق معیشت کرکے ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام لایا جائے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی آج بھی ضرورت ہے۔ اس سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو گا کہ اس میں عمران خان کی ضد حائل تھی یا وہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

اسی سوال کی کوکھ سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ چلیے حزب اختلاف کے ساتھ ہاتھ ملانا عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے سیاسی طور پر مشکل ہوا ہوگا لیکن اس بات کا کیا جواز ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے قومی معیشت کے استحکام کا ہر موقع ضائع کیوں کردیا۔ اس حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں 9 ماہ کی طویل مدت لگا دی۔ یہ مدت اتنی زیادہ تھی کہ اس موقع پر خود اس حکومت کے مشیروں کو کہنا پڑا کہ اتنا وقت ضائع کر دیا گیا ہے کہ اب معیشت کسی صورت مستحکم نہیں ہو سکتی، پھر جب آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل کر لیا تو خود ہی معاہدہ توڑ کر اسے ختم بھی کر دیا گویا بحران مزید سنگین کردیا۔

سیاسی حکومتوں کے خلاف تحریکیں چلا ہی کرتی ہیں اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بھی آ جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف یہ کوئی نیا کام نہیں ہوا تھا لیکن اس حکومت نے سیاسی انداز میں ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے بجائے خارجہ تعلقات کو داؤ پر لگا دیا اور سائفر اسکینڈل کھڑا کر دیا۔ اس حکومت نے صرف یہی بحران پیدا نہیں کیا بلکہ پاکستان کے تقریباً تمام دوست ممالک جن میں چین، ترکیہ، انڈونیشیا، ملائیشیا سب کے ساتھ تعلقات خراب کر لیے۔ کیا یہ واقعات محض نااہلی تھے یا کسی منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر کسی طاقت کے ساتھ تعلقات خفیہ طور پر برقرار رہے یا ان میں گہرائی لانے کی کوشش کی، وہ صرف امریکا تھا جس کا اندازہ کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں بعض ارکان پارلیمان کے رویے سے ہوا۔ جیسا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف سے امریکا کو بظاہر اپنا مخالف قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود امریکا میں بہت سی طاقتور لابیوں سے ان کے تعلقات برقرار رہے جس کے مظاہر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ساری دنیا کے ساتھ مخالفت اور امریکا کے ساتھ قربتیں آخر کیا ظاہر کرتی ہیں؟

یہ ایک عمومی سیاسی تجربہ ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں استحکام پیدا ہو جاتا ہے اور اختلافات دم توڑ جاتے ہیں۔ کیا سبب ہے کہ عدم استحکام کا جو سلسلہ 2014 میں شروع کیا گیا وہ 2018 میں بھی تھمنے نہیں دیا گیا، 2024 کے انتخابات کے بعد بھی اس آگ پر پیٹرول چھڑک کر اسے بھڑکایا جا رہا ہے۔ اس کا راز کیا ہے؟ حالیہ انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا کے صوبے میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بارے میں اگرچہ سنجیدہ اور با خبر حلقوں میں تحفظات موجود ہیں لیکن بفرض محال اگر ان انتخابی نتائج کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس صوبے کی جغرافیائی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر ناگزیر تھا کہ یہاں ٹھنڈے مزاج کی حامل کسی سمجھدار اور دانش مند شخصیت کو وزیراعلیٰ کی ذمے داری سونپی جاتی لیکن جس شخص کو یہ منصب عطا کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جماعت نہ قومی معیشت کے استحکام کے ضمن میں سنجیدہ ہے، نہ سی پیک کے ضمن میں اور نہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکسو دکھائی دیتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس جماعت نے اپنے دور حکومت میں 40 سے 50 ہزار دہشتگردوں کو اس صوبے میں لاکر بسایا تھا اور اگر لائے بھی تھے تو انہیں ایک ہی جگہ بسا کر ان کی قوت کو مجتمع کیوں کیا، بجائے کہ انہیں غیر مسلح کرکے بے اثر کردیا جاتا؟

اس ضمن میں ایک آخری سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان کو مشتعل کیوں کیا گیا؟ بات صرف اتنی نہیں ہے، سوال یہ بھی ہے کہ حکمراں جماعتیں بھی انتخابی نتائج کے ضمن میں عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ اب جبکہ مولانا فضل الرحمان سڑکوں پر آرہے ہیں تو اس مرحلے پر چین نے بھی انہیں انگیج کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا غصہ برقرار ہے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس کے پس پشت کیا ہے۔ مولانا کا اگرچہ ایک اصولی موقف ہے لیکن ان کی طرف سے سڑکوں پر آنے اور حکومت گرانے کی باتیں اس اعتبار سے تشویشناک ہیں کہ اس کے نتیجے میں عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔

اس طرح کے حالات میں ہر دوسرے روز رونما ہوجانے والا کوئی بھی واقعہ اس صورتحال کو مزید بگاڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے، خواہ وہ ججوں کا خط ہو، دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہو یا پی ٹی آئی کی طرف سے ملک کو مستقل ہیجان میں مبتلا رکھنے کی حکمت عملی ہو۔ میرے منہ میں خاک، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ ہمارے اردو گرد یعنی عالمی منظر نامے پر جو کچھ ہورہا ہے، ہمارے یہاں جنم لینے والے نت نئے شگوفے کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ نہ بن جائیں۔ اس لیے ضروری ہے اس صورتحال کی وجوہات جاننے اور ذمے داروں کے تعین کے لیے بالکل اسی طرح کا جوڈیشل ٹریبونل قائم کیا جائے جیسا بھٹو صاحب نے 70 کی دہائی میں عراقی اسلحہ پکڑے جانے کے بعد بنایا تھا کیونکہ ملک میں اس وقت معمول کی سیاست نہیں ہو رہی، بہت خطر ناک اور پُراسرار کھیل ہورہا ہے جس کے پس پردہ کرداروں کا بے نقاب ہونا ناگزیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp