سندھ اور پنجاب کی سرحد پر کچے کا علاقہ پولیس کے لیے علاقہ غیر جبکہ ڈاکوؤں کی جنت کہلاتا ہے، جنہیں مختلف ادوار میں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا لیکن وقت گزرتے ساتھ یہ خود مختار ہوتے گئے اور اب ایک وسیع رقبے پر منظم انداز میں جدید اسلحے سے لیس اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔
پنجاب میں دریائے سندھ کی گزرگاہ ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان کے دونوں اطراف کے علاقے اور اسی طرح سندھ میں گھوٹکی، سکھر، شکارپور، کشمور اور کندھ کوٹ کے دونوں اطراف کے علاقے کچے کے علاقے کہلائے جاتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو عرصہ دراز سے شہریوں کے اغوا برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں، ان کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ بھاری تاوان کے مطالبے کے لیے انہوں نے حال ہی میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ویڈیوز سے خوف و ہراس کا تاثر بڑے پیمانے پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکوؤں کی زورآوری کو دیکھتے ہوئے ملحقہ علاقوں کے منتخب اراکین اسمبلی کے مطالبے پر ایک بار پھر کچے کے علاقے میں پولیس آپریشن کا آغاز کیا جاچکا ہے، امن و امان اور شہریوں کی جان ومال کو لاحق اس نوعیت کے مستقل خطرے سے نمٹنے کے لیے متعدد مرتبہ شروع کیے جانے والے آپریشن کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟
”کچےکےڈاکوؤں کےآوازنہیں اٹھائیں گےتومارےجائینگے“
کیاسچ میں یہ ڈاکواسلحہ پولیس سےخریدتےہیں؟کیوں انکےخلاف ایک گرینڈ ٹارگٹیڈکمبائنڈآپریشن نہیں کیاجاتاآپریشن کاشوشہ چھوڑکرعوام کوبےوقوف بنایاجاتاہےکہ عوام خاموش ہوجاےکون ہےوہ جوانکےخاتمےکےحق میں نہیں؟#کچے_کے_ڈاکووں_کا_خاتمہ_کرو pic.twitter.com/4l3Sxch9Pq
— Ali Imran Abbasi (@aliimranabbasi) March 25, 2024
ڈکیٹ فیکٹر مارشل لا کی پیداوار؟
اس حوالے سے سینئر صحافی ارباب چانڈیو کہتے ہیں کہ سندھ میں ’ڈکیت فیکٹر‘ مارشل لا دور کی پیدا وار ہے، پہلے کوئی ایک بہت عرصے بعد وجود میں آتا تھا اب تو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈکیت بنائے جا رہے ہیں، ڈکیتوں کی نرسریاں اور فیکٹریاں مارشل لا ادوار میں لگیں۔
’ایک وقت تھا جب یہاں کوئی علاقہ محفوظ نہیں تھا یعنی کچے میں ڈکیت تھے تو پکے میں دہشت گرد تھے، یہ سلسلہ ہے تو بہت پرانا لیکن اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔‘
ارباب چانڈیو کے مطابق ان ڈکیتوں کے وجود میں آنے کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں کرپشن کی گہری جڑیں ہیں، کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ مل رہا ہے، راشن مل رہا ہے، بلکہ بکرے تک دستیاب ہیں۔
’ان کے خاتمے کے حوالے سے سوال پر آئی جی سندھ پولیس نے جواب دیا کہ کچے کے ڈاکو بہت منظم انداز میں پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں زمینی حملوں سے کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا فضائی حملہ ناگزیر ہے۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق 50 سے زائد شہری اس وقت کچے کے ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں، جنہیں تاوان وصولی کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے، حال ہی میں بازیاب ہونیوالے رتیک کمار کے بارے میں مقامی سندھی میڈیا نے بتایا کہ وہ 70 لاکھ روپے تاوان کی ادائیگی کے ڈاکوؤں کے چنگل سے رہا ہوئے ہیں۔
شہری ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنستے کیسے ہیں؟
پولیس ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا ان ڈاکوؤں کے لیے شہریوں کے اغوا کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے، ان کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کا اہم ہدف تاجر ہیں، جن کو لبھانے کے لیے گاڑیوں سمیت دیگر مختلف اشیا کی کم قیمت پر فروخت کے اشتہار سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جاتے ہیں۔
’اس نوعیت کے اشتہارات پر جب کوئی رابطہ کرتا ہے تو اسے پرکشش پیشکش دے کر ایسے مقام پر ملاقات کے لیے بلایا جاتا ہے، جہاں اغوا برائے تاوان کی واردات ممکن بنائی جاسکے، کئی شہریوں کے اہل خانہ کو تشدد کی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا جاتا ہے تا کہ تاوان کی رقم وصولی جا سکے۔‘
اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ ہوں یا کوئی بھی اعلیٰ صوبائی عہدیدار، سبھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کچے کے ڈاکوؤں کو فضائی مدد کے بغیر زمینی آپریشن سے ختم کرنا نا ممکن ہے۔
ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق ڈاکوؤں کے کئی ٹھکانے مسمار کیے جا چکے ہیں اور پانچ ڈاکوؤں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے، انڈس ہائی وے پر جرائم میں ملوث ڈاکوؤں کے ٹھکانے تباہ کردیے گئے ہیں۔
’کچے کے راستوں پر چوکیاں قائم کی جارہی ہیں اور ڈاکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے، پولیس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ڈاکو حملے کررہے ہیں لیکن پولیس کے حوصلے بلند ہیں، ڈاکوؤں کے خاتمہ تک آپریشن جاری رہے گا۔‘