جنگ زدہ علاقوں میں ممکنہ قحط پر دنیا کے خدشات میں اضافہ

بدھ 3 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ سمیت جنگ زدہ علاقوں میں تشویشناک حد تک بڑھتی بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی شدت سے پیدا ہونے والے ممکنہ قحط پر دنیا کے خدشات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے چیف اکانومسٹ عارف حسین نے اقوام متحدہ کے ادارے یو این نیوز سے گفتگو کی ہے۔

کس صورتحال کو قحط کہا جاتا ہے؟

عارف حسین کے مطابق قحط ایک تکنیکی اصطلاح ہے۔ جب کسی آبادی کو غذائی قلت کے نتیجے میں خوراک تک عدم رسائی کے باعث وسیع پیمانے پر اموات کا سامنا ہو تو اس صورتحال کو قحط کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جب کسی علاقے، گاؤں، شہر یا ملک میں مخصوص تعداد میں لوگوں کو بیک وقت 3 طرح کے حالات درپیش ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہاں قحط پھیل گیا ہے۔ یہ کیفیت اس وقت جنم لیتی ہے جب اس علاقے میں کم از کم 20 فیصد آبادی کو شدید درجوں کی بھوک کا سامنا ہو، اس جگہ 30 فیصد بچے کمزوری کا شکار ہوں یا اپنے قد کے لحاظ سے انتہائی لاغر ہوں اور اس علاقے میں معمول کی اموات (10 ہزار بچوں میں روزانہ 4 اور 10 ہزار بالغوں میں روزانہ 2 اموات) میں دو گنا اضافہ ہو جائے۔

عارف حسین نے کہاکہ اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ قحط اجتماعی ناکامی کا نام ہے۔ قحط رونما ہونے سے پہلے ہی اسے روکنے کے اقدامات کرنا ضروری ہیں تاکہ لوگ بھوک کا شکار نہ ہوں، بچوں کو جسمانی کمزوری کا سامنا نہ ہو اور بھوک کے باعث ہونے والی اموات پر قابو پایا جا سکے۔

بھوک کا پتا کیسے چلایا جاتا ہے؟

دور حاضر میں قحط کے حالات 1970 یا 1980 کی دہائی میں آنے والے قحط سے مختلف ہوتے ہیں جب ایتھوپیا اور دیگر ممالک میں خشک سالی ہی اس کی بڑی وجہ ہوتی تھی۔ اس دور میں جب قحط آتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ انہیں اس پر افسوس ہے اور وہ اس بارے میں آگاہ نہیں تھے۔ اگر انہیں علم ہوتا تو وہ اس صورتحال پر ضرور کوئی اقدام کرتے۔

عارف حسین کے مطابق آج جب کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو لوگ اُسی وقت اس سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں اس کا علم نہیں تھا۔اب اس مسئلے پر دنیا کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلی سے جنم لینے والے غذائی عدم تحفظ کی اب اچھی طرح نگرانی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا کے پاس اس مقصد کے لیے درکار نظام موجود ہے۔ بین الاقوامی امدادی ادارے بھی اپنے کام میں اس نظام سے استفادہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں قحط یا اس کے خدشات عموماً جنگوں سے جنم لیتے ہیں۔ جنوبی سوڈان، یمن اور اب مقبوضہ فلسطینی علاقے کی صورتحال سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ 21ویں صدی میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط کو روکنے میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے۔ اس میں شدید درجے کی بھوک کا پتا چلانے کے لیے وضع کردہ ایک اختراعی ذریعے کا اہم کردار ہے۔ اسے 20 سال پہلے صومالیہ میں آنے والے بحران کے دوران اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے تیار کیا تھا اور اب دنیا بھر میں امدادی ادارے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اس اقدام کو غذائی تحفظ کے ادوار کی مربوط درجہ بندی یا ‘آئی پی سی’ بھی کہا جاتا ہے۔

آئی پی سی کیا ہے؟

‘آئی پی سی’ بہت سے شراکت داروں کا ایک اختراعی اقدام ہے جس کا مقصد غذائی تحفظ اور غذائیت سے متعلق تجزیوں اور متعلقہ فیصلہ سازی کو بہتر بنانا ہے۔

‘آئی پی سی’ کے تحت غذائی تحفظ یا عدم تحفظ کی درجہ بندی اور اس حوالے سے تجزیاتی طریقہ کار سے حکومتوں، اقوام متحدہ کے اداروں، غیرسرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ کرداروں کو غذائی عدم تحفظ کی شدت کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کی بدولت انہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میں بین الاقوامی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی قلت کی وسعت اور شدت کتنی ہے۔

30 سے زیادہ ممالک میں اس اقدام سے کام لیا جا چکا ہے اور 19 اداروں کا عالمگیر اتحاد عالمی، علاقائی اور ملکی سطح پر آئی پی سی کی تیاری اور عملدرآمد کے اقدامات کی قیادت کر رہا ہے۔

گزشتہ 20 برس میں یہ عالمگیر غذائی تحفظ کے میدان میں ایک بہترین طریقہ ثابت ہوا ہے جسے لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے 30 سے زیادہ ممالک باہمی تعاون کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔

‘آئی پی سی’ بھوک کے پھیلاؤ کا پتا چلاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بڑے پیمانے پر شدید غذائی قلت کے قحط میں تبدیل ہونے سے قبل انتباہ بھی جاری کرتا ہے۔

آئی پی سی کام کیسے کرتا ہے؟

یہ اقدام بذات خود معلومات جمع نہیں کرتا بلکہ یہ معلومات کسی علاقے میں کام کرنے والے اس کے امدادی شراکت داروں کے ذریعے آتی ہیں۔

یہ معلومات غذائی تحفظ، غذائیت، شرح اموات، لوگوں کے روزگار اور انہیں حاصل ہونے والے غذائی حراروں سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں شراکت دار اسے خوراک کے حصول سے متعلق لوگوں کے طریقوں، غذائی قلت کا جائزہ لینے کے لیے بچوں کے بازوؤں کی پیمائش (ایم یو اے سی) سے متعلق معلومات بھی مہیا کرتے ہیں۔

معلومات کے حصول کا کام ہر وقت جاری رہتا ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں بھی اسے روکا نہیں جاتا۔ جن علاقوں تک رسائی مشکل ہو وہاں سے موبائل فون اور سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات کے حصول کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

‘آئی پی سی’ کے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے والے تکنیکی ماہرین بڑے پیمانے پر معلومات کا تجزیہ کر کے اس کے چیدہ حصے الگ کرتے ہیں۔ اس طرح فیصلہ سازوں کے لیے بدترین حالات کی روک تھام اور ضروریات کی موثر طور سے تکمیل آسان ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد یہ ماہرین ان معلومات کا تجزیہ کرتے اور غذائی قلت کا شکار لوگوں کو پانچ درجوں یا ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ معمولی درجے کی غذائی قلت یا خوراک کے حصول میں کسی طرح کے دباؤ کا سامنا نہ ہونا پہلا درجہ ہے۔ دوسرے درجے میں ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں خوراک کے حصول میں دباؤ کا سامنا ہو۔ تیسرا درجہ غذائی بحران سے متعلق اور چوتھا غذائی تحفظ کے حوالے سے ہنگامی حالات کا احاطہ کرتا ہے جبکہ پانچویں درجے کو تباہ کن صورتحال یا قحط کہا جاتا ہے۔

آئی پی سی کے نقشے پر پانچوں درجوں میں آنے والی آبادی کے تناسب سے جغرافیائی علاقوں کو مختلف شدت کے غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کرنے والے رنگ دیے گئے ہیں۔ ان میں کم ترین سے انتہائی شدید درجے کی کیفیات (معمولی، دباؤ، بحران، ہنگامی حالات اور قحط) شامل ہیں۔

ہر علاقے کو درپیش غذائی عدم تحفظ کی درجہ بندی الگ طرح کے اثرات کی نشاندہی کرتی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی جگہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کیسے اقدامات ہونے چاہیئیں۔ اس طرح یہ عمل ترجیحی اقدامات کے تعین میں مدد دیتا ہے۔

آئی پی سی کی جائزہ کمیٹی کیا کرتی ہے؟

عارف حسین نے بتایا کہ اگر کسی جگہ قحط کا خدشہ ہو تو اضافی قدم کے طور پر ‘آئی پی سی’ کی ایک مخصوص کمیٹی ممکنہ قحط کا باعث بننے والے حالات کا جائزہ لیتی ہے۔

یہ کمیٹی دنیا بھر سے غذائیت، صحت اور تحفظِ خوراک کے ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب کسی جگہ ‘آئی پی سی’ کے پانچویں درجے میں آنے والے لوگوں کی تعداد مجموعی آبادی کے 20 فیصد سے تجاوز کر جائے تو اس کمیٹی کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔

اتفاق رائے کی بنیاد پر اس طریقہ کار کے تحت تمام شراکت داروں کا زیرغور صورتحال کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنا لازمی ہے جس کی یہ کمیٹی توثیق کرتی ہے۔

یہ کمیٹی تمام معلومات اور ‘آئی پی سی’ کے شراکت داروں کے تجزیوں کا جائزہ لے کر تعین کرتی ہے کہ آیا یہ معلومات قابل اعتبار ہیں یا نہیں۔ کمیٹی یہ بھی دیکھتی ہے کہ آیا اس کے پیش نظر معلومات کی رو سے کسی علاقے کو قحط زدہ قرار دیا جا سکتا ہے یا اس کی معقول وجوہات موجود ہیں۔

اس کے بعد ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں کون سے حالات درپیش ہیں اور اس حوالے سے آئندہ تین یا چھ ماہ کی صورتحال سے متعلق پیش گوئی کرتے ہیں جیسا کہ دسمبر میں آئی پی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔

قحط زدہ علاقہ اور امدادی ادارے

امدادی اداروں کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ‘آئی پی سی’ کی اس درجہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیسرے اور اس سے بلند درجے میں آنے والی آبادی کو مدد دینے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس منصوبہ بندی میں قحط سے بچنے کے مخصوص ہدف کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں لوگوں تک مدد پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ قحط جیسے حالات کو روکا جا سکے۔ امدادی ادارے بحرانی دور اور ہنگامی حالات میں کڑی محنت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ ملے اور وہ قحط سے بچ سکیں۔ اس میں غذائی امداد کی فراہمی میں اضافہ کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اس طرح لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ قحط کی روک تھام کے لیے کوشاں

عارف حسین کہتے ہیں کہ اگرچہ ضروریات بہت زیادہ ہیں تاہم ‘ڈبلیو ایف پی’ کے مطابق، 72 ممالک میں 30 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو بحرانی یا اس سے بلند درجے کی بھوک کا سامنا ہے۔ امدادی اداروں کے لیے قحط ایک برا لفظ ہے اور اس کی روک تھام ہی بنیادی مقصد ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر قحط کو روکنا ہے تو اس کے لیے پہلے جنگوں کو روکنا ہو گا۔ تاہم اگر اس میں وقت لگے گا تو پھر دنیا اور امدادی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والوں یا جنگوں کے نتیجے میں بے گھر ہو جانے والے لوگوں کو خوراک، پانی، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp