آن لائن لوکل برانڈز خواتین میں کیوں مشہور ہو رہے ہیں؟

جمعرات 4 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کورونا وبا کے دوران آن لائن شاپنگ کا رجحان ایسا بڑھا کہ اب 90 فیصد افراد آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ عالمی وبا کے بعد ای کامرس کی ایک ایسی دوڑ بھی چل پڑی ہے کہ جس کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز ہی ہوتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں

فیس بک اور انسٹاگرام پر صرف مشہور برانڈز ہی دستیاب نہیں بلکہ چھوٹے لوکل برانڈز کی بھی ایک بھرمار لگ چکی ہے۔

یہ چھوٹے برانڈز نہ صرف ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے بڑے اور مشہور برانڈز کے مقابلے میں اچھے اور معیاری کپڑوں اور جوتوں کی ورائٹی فراہم کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر خواتین بڑے بڑے برانڈز کے حد سے زیادہ مہنگے کپڑوں کے مقابلے میں ان تمام آن لائن لوکل برانڈز سے چیزیں لینے کو ترجیح دے رہی ہیں۔

رابیل جمشید کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ عید کی تیاریوں کے حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عید کے کپڑوں کے لیے بازار کے بہت چکر لگائے مگر تمام برانڈز کے کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ حالانکہ پہلے 5 ہزار روپے تک کسی بھی برانڈ کا سوٹ آرام سے آجایا کرتا تھا لیکن اب تو 5 ہزار روپے میں صرف شرٹ بھی مشکل سے مل رہی ہے۔

رابیل نے کہا کہ ’یہ بات ٹھیک ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے مگر برانڈڈ کپڑوں کی قیمتیں حد سے زیادہ ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کپڑوں کے پرائس ٹیگز پر لکھی قیمت اس آرٹیکل سے اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ حقیقت میں اس قیمت کے قابل نہیں ہوتا اور مڈل کلاس لوگوں کے لیے تو اب برانڈڈ کپڑے پہننا نا ممکن ہی ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹس مسلسل گھومنے کے بعد انسٹاگرام پر انہیں ایک ایسا آن لائن اسٹور نظر آیا جس پر پاکستان کے ایک بہت مہنگے اور معروف برانڈ کی کاپیاں موجود تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پھر جب اس آن لائن اسٹور کو انہوں نے مزید ایکسپلور کیا تو اس پر ہوبہو ویسے ہی کپڑے بہت ہی کم قیمت پر دستیاب تھے۔

رابیل نے کہا کہ ’بس وہ دیکھتے ہی میں نے جلدی سے اپنے لیے ایک سوٹ آرڈر کیا جو مجھے پرسوں ہی ڈیلیور ہوا ہے اور واقعی اس کی کوالٹی بھی بہت اچھی ہے اور اس پر جو کڑھائی ہے وہ تو بلکل ویسی ہی تھی جیسی اس برانڈڈ آئٹمز پر تھی جس کی قیمت تقریباً 14 ہزار 500 روپے تھی جب کہ  یہ مجھے 5 ہزار 950  روپے کا مل گیا‘۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عارفہ نیازی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے بعد سے وہ زیادہ تر آن لائن ہی شاپنگ کرتی ہیں کیونکہ وہ ایک ورکنگ وومن ہیں اور ان کے لیے نوکری کے ساتھ خاص طور پر رمضان میں باہر نکلنا بہت مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے کورونا وبا کے دوران پہلی بار آن لائن شاپنگ شروع کی تھی اور اس وقت سے اب تک میں آن لائن شاپنگ کو ہی ترجیح دیتی ہوں کیونکہ اب اتنے زیادہ لوکل برانڈز آ چکے ہیں اور فیس بک اور انسٹاگرام پر بھی بہت اچھے برینڈز ہیں جو بڑے برانڈز کی نسبت بہت کم پیسوں میں اور بہت اچھی کوالٹی کے ہوتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عید پر بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے زیادہ تر خریداری آن لائن ہی کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھ سمیت میری 2 بیٹیوں کے کپڑے تقریبا 15 ہزار روپے میں آ گئے ہیں اور اگر یہی کپڑے میں کسی شاپنگ مال یا کسی برانڈڈ دکان سے لینے جاتی تو شاید اتنے میں مجھ اکیلی کا ہی جوڑا آتا۔

سندس کرن کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور اس برس کے آخر میں ان کی شادی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں کچھ فینسی کپڑے پسند آئے اور جب انہوں نے قیمتیں دیکھی تو کوئی 30 ہزار روپے کا تھا تو کوئی 18 ہزار روپے کا لیکن ظاہر ہے پیسے یا پسند ہونے کے باوجود بھی میں کبھی بھی اتنے مہنگے کپڑے لینا مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ خاص طور پر شادی والے کپڑے اتنے پہنے بھی نہیں جاتے۔

انہوں نے کہا کہ پھر انہوں نے آن لائن ان تمام کپڑوں کے ریپلیکا آرڈر کیے جو انہیں 5 سے 7 ہزار روپے میں بآسانی مل گئے اور وہ ایسے ہیں کہ ان کو دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کاپی ہیں۔

سندس نے کہا کہ ’ویسے تو آن لائن خریداری کے دوران فراڈ بھی بہت ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر آپ ٹھیک طرح سے چھان بین کر لیں تو میرا نہیں خیال کے آپ کے ساتھ کوئی دھوکا ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے برانڈز کے مہنگے ترین کپڑوں اور جوتوں کے جب متبادل موجود ہوں تو برانڈڈ چیزیں لینا بیوقوفی لگتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp