حکومتی اتحاد کو اس وقت 226 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ دو تہائی اکثریت 336 کے ایوان میں 224 ارکان کی حمایت سے بنتی ہے۔ سینیٹ میں بھی حکومتی اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ جبکہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے قریب ہے۔ خیبر پختونخوا سے سینیٹرز کا انتخاب ملتوی کیا جاچکا ہے۔ اب صوبے میں سینیٹ الیکشن ہو جانے کے بعد ایوان بالا میں بھی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائےگی۔
پی ٹی آئی الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے جیتنے کے دعوے کرتی اپنی دو تباہی کرا چکی ہے۔ سیاسی طور پر حکومتی اتحاد مستحکم اور موثر ہے۔ 3 صوبوں اور مرکز میں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم ہو چکی۔ ایک صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے وفاق سے متھا لگا رکھا ہے۔ صوبہ دیوالیہ ہے، خالی جیب اس سے لڑنا جس سے پیسے بھی لینے ہوں آپشن محدود کر دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اتحاد قائم رہتا ہے تو اس حکومت کو ہٹانا ہلانا بالکل ہی ممکن نہیں ہے۔
میڈیا کے شور سے پرے حکومت مضبوط اور مستحکم ہے۔ صرف مستحکم نہیں ہے آئینی ترمیم کرنے کے لیے درکار اکثریت بھی اس اتحاد کو دستیاب ہے۔ یہ کسی بھی اپوزیشن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہو سکتا ہے۔ بات اتنی سادہ ہے نہیں۔ پی ٹی آئی نے واضح طور پر اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔
کپتان نے اپنی کور کمیٹی کی تجاویز مانتے ہوئے بیرسٹر گوہر اور کور کمیٹی کو زیادہ اختیارات دے دیے ہیں ۔ شیر افضل مروت اور عمیر نیازی کو سائیڈ پر کردیا ہے۔ یہ دونوں کپتان کے ساتھ سب سے زیادہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، مجلس وحدت المسلمین، جماعت اسلامی، بی این پی مینگل اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا۔ جس میں گرینڈ اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ محمود خان اچکزئی اس متوقع اتحاد کے سربراہ ہوں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق محمود خان اچکزئی نے تمام پارٹیوں سے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کو اتحاد میں شمولیت کے لیے منا لیں گے۔ ادھر رک کر زرا ’مزے تو ماہیا پھر آئیں گے‘ گا لیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی اس اتحاد میں شمولیت کے بعد دھرنے ہوں گے تو زور دار رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل احتجاج کرنا جانتے ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ کے اندر دباؤ بڑھا کر بھی اپنے مطالبات منوانے آتے ہیں۔ اس اتحاد کو پی ٹی آئی کی صورت بھرپور عوامی حمایت، جماعت اسلامی، جے یو آئی، وحدت المسلمین کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل کے اسٹریٹ ہارڈ سیاسی کارکنوں کی مدد بھی حاصل ہو گی۔ پی ٹی آئی کے جنون کو اب سیاسی فراست بھی دستیاب ہو جائے گی۔
پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کا علاج ایسی ہی اپوزیشن کر سکتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کا قیام کوئی بری خبر نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اب زیادہ سیاسی اور پارلیمانی انداز اپنانے کی طرف جاسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بزرگ سیاسی قائدین پی ٹی آئی کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ایسا ہو تو یہ بھی پھر دیکھنے والے نظارے ہوں گے۔
حکومت میں شامل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی اپوزیشن میں شامل رہنماؤں اور ان کے انداز سیاست کی پرانی واقف ہیں۔ یہ سب سابق اتحادی بھی رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے بھی ہیں۔ مخالفت یا حمایت کرتے احترام برقرار رکھتے ہیں۔ اس اتحاد کا منطقی نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر معیشت، سفارت، سیکیورٹی پر کوئی اتحاد کرلیں۔ ’ہمارے ہاں اچھے کام کدھر ہوتے ہیں‘۔
حکومت اور اپوزیشن کے کیمپ میں جاری تبدیلیوں کا سیدھا اثر حوالدار بشیر پر ہونا ہے۔ دونوں کیمپوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ستائے ہوئے ہیں۔ یہ پنڈی کے اتحادی بھی رہے ہیں اور مخالف بھی۔ ان کو اپنے اپنے دکھ یاد آگئے، دوسرے کے سمجھ آگئے تو یہ مل بیٹھنے اور نئے رولز آف گیم بنانے کے لیے اچھی وجہ ہو سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو پھر حوالدار بشیر کو ’دس میں کی پیار وچوں کھٹیا‘ گانا بنتا ہے۔ اس پیار کا گلہ کرتے ہوئے بھائی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسے سچا پیار بھی تو روز نئی پارٹی سے ہو جایا کرتا تھا۔