چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ابراہیم کون ہیں اور کب ریٹائر ہوں گے؟

جمعرات 4 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

30 سال تک عدلیہ میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان 14 اپریل کو سبکدوش ہو رہے ہیں لیکن اس مدت ملازمت کے دوران سپریم کورٹ کے لیے اپنا نام زیر غور نہ آنے پر نہایت سلیقے سے شکوہ کا اظہار کیاہے۔

مزید پڑھیں

جسٹس ابراہیم خان کی ناراضی کی وجہ

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھے اپنے خط میں جسٹس محمد ابراہیم نے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے اپنا نام زیر غور نہ لانے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

’میں ہائیکورٹس کے تمام ججوں میں دوسرا سینئر ترین چیف جسٹس ہوں اور جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن بھی ہوں اس لیے توقع تو یہ تھی کہ میرا نام کم از کم زیرغور تو ضرور لایا جائےگا۔‘

جسٹس محمد ابراہیم کا تعارف

چیف جسٹس ابراہیم خان 15 اپریل 1962 کو خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد 1974 میں کیڈٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لیا جہاں وہ 1979 تک زیر تعلیم رہے، بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے وابستہ خیبر لا کالج سے امتیازی نمبروں سے قانون کا امتحان پاس کرتے ہوئے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔

قانون کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد جسٹس ابراہیم خان نے وکالت کا آغاز کیا اور 8 سال تک پشاور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں نہ صرف وکالت کی بلکہ بار کی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے۔

عدلیہ میں بطور جج اپنے کریئر کا آغاز جسٹس ابراہیم خان نے 1993 میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کی حیثیت سے کوہاٹ میں تعیناتی کے ساتھ کیا، ماتحت عدالت سے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس ابراہیم خان اہم عہدوں پر تعینات رہے۔

جسٹس ابراہیم خان ایڈیشنل سیشن جج کوہاٹ، چارسدہ، مانسہرہ، ہری پور اور پشاور رہے اور اس کے ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شانگلہ، ڈی آئی خان، ہنگو اور مردان بھی اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

وہ ایبٹ آباد اور پشاور کی انسداد دہشتگری عدالت کے جج سمیت 2013 سے 2016 تک 3 سال احتساب عدالت کے جج بھی رہے ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ میں تعیناتی

جسٹس ابراہیم خان نے 11 اگست 2016 کو پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کا حلف اٹھایا اور تقریباً 2 سال تک اسی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 2018 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کے مستقبل جج بن گئے۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کی جوڈیشنل انکوائری

پشاور ہائیکورٹ میں تعیناتی کے بعد جسٹس محمد ابراہیم خان کئی اہم مقدمات کی سماعت کرچکے ہیں، سال 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کے پشاور کے دورے پر آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے والدین کی درخواست پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا تو اس وقت کے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے انہیں ہی جوڈیشنل انکوائری کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

جسٹس ابراہیم خان نے غمزدہ خاندانوں کے 102 افراد کا بیان قلمبند کیا جبکہ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور سمیت اہم عسکری اور سول افسروں کے بیان قلمبند کرنے کے بعد 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائ تھی۔

بطور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعیناتی

نو مئی کے واقعات کے پر پشاور ہائی کورٹ میں سیاسی نوعیت کے کیسز میں اضافہ ہوا، جب دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما بھی راہداری ضمانت کے لیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے لگے، یہیں سے عمران خان کو پشاور ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت ملی تھی۔

سیاسی رہنماؤں کو ریلیف دینے پر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ابراہیم خان کا تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا، ایک کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ ان کا کسی بھی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، بعض ضمانت کے باوجود گرفتاری پر انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔

صوابی سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے کی ضمانت کے باوجود دوسرے کیس میں گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کرنے اور بعد میں رہائی کا بھی حکم دیا تھا، اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا تھا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرانے کی صورت میں انہیں کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔

جسٹس ابراہیم خان نے  ایک مرتبہ رات گئے بھی عدالت لگائی اور سابق وفاقی وزیر زرتاج گل کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ وہ اسلام آباد سے خصوصی طور پر پشاور ہائیکورٹ پہنچے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp