آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان کنٹرول لائن کے آر پار خونی لکیر کے باعث کشمیری پناہ گزین دہائیوں سے اپنے پیاروں سے دور عید مناتے آئے ہیں۔
آزاد کشمیر میں مقیم ان کشمیری پناہ گزینوں کے بیشتر عزیزو اقارب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہیں جن سے یہ مل نہیں سکتے اور نہ ہی واپس جاسکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر سے 8 ہزار خاندان آزاد کشمیر آئے
یہ کشمیری پناہ گزیں 80 اور 90کی دہائی میں بھارتی مظالم سے تنگ آ کر مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر آئے۔ لگ بھگ 45 ہزار افراد پر مشتمل 8 ہزار خاندان آزاد کشمیر کے 13 کیمپوں میں آباد ہیں یا اپنے طور پر کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں۔
ان میں سے بیشتر مظفرآباد شہر یا اس کے گردنواح میں رہتے ہیں۔ کئی سالوں کی طرح یہ اس سال بھی عید اپنے پیاروں کے بغیر گزاریں گے۔
ان ہی پناہ گزینوں میں شامل محمد صدیق لون کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔
اپنوں کے بغیر عید منانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے
انہوں نے کہا کہ اپنوں کے بغیر عید منانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم ایک ساتھ ہوتے تو مل کر عید مناتے، ہم یہاں ہیں اور ہمارے پیارے سرحد کی دوسری طرف۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان ایک ایسی سرحد ہے جس کو ہم اپنی مرضی سے پار نہیں کرسکتے ہیں۔ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ہونے کے باوجود ہم اپنے رشتہ داروں سے بات نہیں کر سکتے۔‘
محمد علی لون 1989 میں اکیلے آزاد کشمیر آئے
محمد صدیق لون کے والد علی محمد لون سنہ 1989 میں اس وقت اکیلے آزاد کشمیر آئے تھے جب مقبوضہ کشمیر میں انڈیا سے آزادی کے لیے مسلح تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔
ان کے بیشتر خاندان والے اور عزیز و اقارب مقبوضہ کشمیر میں رہ گئے۔ علی محمد نے 1990 میں مظفرآباد میں شادی کی، محمد صدیق لون ان کے 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ علی محمد لون گزشتہ سال ستمبر میں وفات پا گئے۔
محمد صدیق لون نے بتایا کہ والد کی وفات سے پہلے انہوں نے اپنے پیاروں کو تصویروں یا ویڈیو میں ہی دیکھا تھا لیکن والد کی وفات کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں پہلی بار ان کے چچا تعزیت کے لیے مقبوضہ کشمیر سے مظفرآباد آئے تھے اور وہ ان کے ساتھ کوئی ایک ماہ رہے۔
چاچا کو کئی گھنٹوں کا سفر کئی دنوں میں طے کرنا پڑا
محمد صدیق لون کا کہنا ہے کہ ’ مظفرآباد سے مقبوضہ کشمیر میں ان کا آبائی گھر چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے لیکن ان کے چچا کو ویزا حاصل کرنے کے لیے سرینگر سے دہلی جانا پڑا اور وہاں سے وہ امرتسر گئے جس کے بعد لاہور اور پھر مظفرآباد آنا پڑا۔ چند گھنٹوں کا سفر ان کو دنوں میں طے کرنا پڑا۔’
والد کی وفات پر کوئی رشتہ دار مظفرآباد نہیں آ سکا
صدیق لون نے کہا کہ ان کے والد کی وفات سے پہلے ان کا کوئی عزیز مظفرآباد نہیں آسکا تھا نہ ہی ان کے والد یا ان کے خاندان والے کبھی مقبوضہ کشمیر جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں ان کے والد اور مقبوضہ کشمیر میں ان کے خاندان والوں کے درمیاں خط و کتابت ہوتی رہی۔
2000 میں پہلی بار دریا کنارے سے اپنے پیاروں کو عید مبارک کہا
بعد میں 2000 کی دہائی میں 3 مرتبہ موقع ملا کہ جب ان کو وادی نیلم کی علاقے کیرن میں دریا کے ایک کنارے کھڑا ہونے کی اجازت دی گئی جہاں انہوں نے دور سے اپنے رشتہ داروں کو عید مبارک کہا لیکن بعد میں یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
2010 میں پہلی بار رشتہ داروں سے رابطہ ہوا
انہوں نے کہا کہ 2010 میں پہلی مرتبہ ان کے رشتہ داروں سے فون پر اور واٹس ایپ پر رابط رہا۔ لیکن وادی کشمیر کے مخدوش حالات کی وجہ سے کبھی مہینوں ہمارا رابط عزیوں سے نہیں ہو پاتا کیونکہ وہاں انٹرنیٹ اور فون کی سہولت زیادہ تر بند ہی رہتی ہے۔
واضع رہے کہ 2008، 2009 ، 2010 ، 2011 میں وادی میں عوامی تحریکوں کے دوران انٹرنیٹ اور فون کی سہولت بند کی جاتی رہی ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد کئی مہینے انٹرنیٹ سروس بند رہی
جولائی 2016 میں مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ہفتوں انٹرنیٹ سروس اور فون بند کیے گئے۔ اسی طرح سے 5 اگست 2019 میں انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثت ختم کردی تو تب بھی کئی مہینوں تک انٹرنیٹ اور فون سروس بند رہی۔
اس سال اپنے پیاروں سے تو عید پر بھی بات نہیں ہو سکے گی
محمد صدیق لون کا کہنا ہے کہ اس عید پر تو ان کے مقبوضہ کشمیر میں موجود پیاروں سے بات بھی نہیں ہو پائے گی کیوں کہ ان کے مطابق بھارت میں الیکشن کے وجہ سے سیکیورٹی مزید سخت کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کا مقبوضہ کشمیر میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا۔