ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو متعدد سیاسی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان تحریک انصاف، جمیعت علما اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شروع دن سے انتخابی نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
ماہ رمضان میں دیگر سیاسی جماعتوں نے احتجاج تو نہیں کیا تاہم پی ٹی آئی نے ماہ رمضان میں بھی احتجاج جاری رکھا، تمام بڑے شہروں میں ہفتے میں ایک مرتبہ احتجاجی ریلی نکالی جاتی تھی، اس دوران پی ٹی آئی رہنما اور کارکنان چوری کیا گیا اپنا مینڈیٹ واپس دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔
مزید پڑھیں
جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ماہ رمضان کے شروع میں ہی عمرے کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب روانہ ہو گئے تھے اور ان کی پارٹی نے عید کے بعد ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔
جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد سے ہی احتجاج شروع کر دیے تھے، جماعت اسلامی کراچی اور اسلام آباد میں بڑے احتجاجی جلسے کرچکی ہے، جبکہ ماہ رمضان میں جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج کے خلاف کوئی بڑا احتجاج نہیں کیا تاہم عید کے بعد جماعت اسلامی ایک مرتبہ پھر سے میدان میں نظر آئےگی۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے انتخابی نتائج کے خلاف 27 فروری کو سندھ میں یوم سیاہ منایا تھا جس میں جماعت اسلامی، جمیعت علما اسلام سمیت دیگر جماعتوں نے شرکت کی تھی۔ اس سے قبل جی ڈی اے نے 16 فروری کو جامشورو شاہراہ پر دھرنا دیا تھا جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔
صوبہ بلوچستان میں بھی متعدد سیاسی جماعتوں نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاج کیا اور کئی روز تک دھرنا دیا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ڈی آر او آفس کے باہر احتجاج اور دھرنا دیا جو کہ 10 دنوں تک جاری رہا۔
ماہ رمضان میں سیاسی جماعتوں کا احتجاج ٹھنڈا رہا
ماہ رمضان میں اپوزیشن جماعتوں کا انتخابات کے نتائج کے خلاف ہونے والا احتجاج کافی ٹھنڈا رہا تاہم تمام اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد نئے سرے سے احتجاج کی تیاری کر رکھی ہے، اس سلسلے میں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی ایک بیٹھک بھی ہو چکی ہے جس میں عید کے بعد مل کر احتجاج کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
جمیعت علما اسلام کے کارکنان ملک بھر میں موجود ہیں، ماضی میں بھی جے یو آئی آزادی مارچ اور لانگ مارچ جیسے بڑے احتجاج کرچکی ہے، جبکہ پی ڈی ایم دور حکومت میں سپریم کورٹ ججز کے پارلیمانی کارروائیوں پر فیصلوں کے خلاف شاہراہِ دستور پر سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی جلسہ کیا تھا۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد کیسے حکومت کے خلاف احتجاج کریں گی اور اس احتجاج سے حکومت کو کتنا ٹف ٹائم ملےگا۔
پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں سے مل کر احتجاج کی خواہاں
پاکستان تحریک انصاف کا دعوٰی ہے کہ ان سے قومی اسمبلی کی 100 سے زیادہ نشستیں چھینی گئی ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شدت بھی سب سے زیادہ نظر آئے گی۔ پی ٹی آئی نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے، اس لیے اس احتجاج سے حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے 19 اپریل کو راولپنڈی کے جلسے سے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے، جبکہ کراچی اور بلوچستان میں بھی جلسے شیڈول کیے جائیں گے۔ جلسوں کے شیڈول کا اعلان عید کے فوری بعد 12 اپریل کو جاری کیا جائےگا۔
جمعیت علما اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ اور ملک گیر احتجاج کی تیاری شروع کردی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مرکز میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان جے یو آئی خیبر پختونخوا حاجی جلیل جان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائےگا۔
مولانا فضل الرحمان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری
جمیعت علما اسلام کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان بدستور کسی صورت بھی نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، الیکشن نتائج سے مولانا کو دھچکا لگا ہے، عید کے بعد باہر سڑکوں پر احتجاج کی سیاست اپنائیں گے اور مینڈیٹ چوروں کو بے نقاب کریں گے۔
جماعت اسلامی ان سیاسی جماعتوں میں سے ہے کہ جو ایک منظم طریقے سے احتجاج کرتی ہے، ماضی میں بھی جماعت اسلامی اپنے احتجاج اور دھرنوں سے حکومتوں کو ٹف ٹائم دے چکی ہے، اب بھی جماعت اسلامی کراچی اور اسلام آباد میں بھر پور انداز میں انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کی تیاری کرچکی ہے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق نے پی ٹی آئی رہنماؤں عمر ایوب اور اسد قیصر سے مارچ کے آخر میں ملاقات کی تھی جس میں الیکشن میں دھاندلی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے، ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور آئین کی بالادستی کے لیے مل کر کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
سیاسی جماعتوں نے مل کر احتجاج کیا تو حکومت کو ٹف ٹائم ملےگا
پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کے ہونے والے احتجاج سے حکومت وقت کو بہت نقصان پہنچتا ہے، اس احتجاج کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم احتجاج اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے اور وہ اسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں الگ الگ اپنے ایجنڈے کے تحت احتجاج کریں تو ہو سکتا ہے کہ حکومت کو زیادہ ٹف ٹائم نہ ملے تاہم اگر پی ٹی آئی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے مل کر سڑکوں پر احتجاج شروع کردیا تو حکومت کو بہت ٹف ٹائم ملے گا۔