گزشتہ 10 برس سے پاکستان تحریک انصاف نے ملک کی سیاست پر کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام رہنماء سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا سچا جھوٹا بیانیہ انتہائی مہارت سے بیچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
2014 کے دھرنے میں عمران خان کے کان میں کسی نے جو پھونک ماری، انہوں نے اسے ایسے انداز میں آگے اپنے چاہنے والوں تک پہنچایا کہ آج بھی تحریک انصاف کے حمایتی اسے ذہن نشین کیے بیٹھے ہیں۔ 35 پنکچر ہوں یا 200 ارب ڈالر کی کرپشن عمران خان نے عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
عمران خان نے جو چاہا، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے وہ کر دکھایا۔ پہلے سیاسی مخالفین پر ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے الزامات کی بوچھاڑ کی اور پھر سب کو جیلوں میں ڈال دیا۔
اس طرح 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھال لیا۔ اگرچہ کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی مگر عمران خان اگلے 20 سال کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان زیادہ ‘خطرناک’ ہوگئے۔ سائفر لہرایا اور فوج پر امریکی سازش کے ذریعے ان کی حکومت ختم کرنے کا الزام لگا دیا۔
سوشل میڈیا کی طاقت کا استعمال پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں کر پائی۔ حالیہ الیکشن میں تحریک انصاف نے ثابت کیا کہ گرفتاریاں، دھمکیاں اور کیسسز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے عزم کو متزلزل نہیں کر پائیں اور ہر قسم کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے طور سامنے آگئی۔
بعض تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کا خیال تھا کہ فروری 8 کے انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور معیشت سنبھلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ حکومت میں آ کر پاکستان تحریک انصاف کی کاکردگی بدترین اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ دھرنے، سوشل میڈیا یلغار کے ذریعے ملک میں بے چینی اور افراتفری پھیلائیں گے۔ ان کی جماعت سے اختلاف کرنے والوں پر ان کی سوشل میڈیا بریگیڈ اس کا جینا محال کر دے گی۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد اب تک عدلیہ نے ایسے فیصلے دیے جن پر آئینی ماہرین بھی پریشان ہوگئے۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بیٹھے ججوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لیے بھرپور سہولت کاری کی۔ عدلیہ میں واضح تقسیم نظرآئی جو آج بھی موجود ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط نے ملک میں ایک طوفان برپا کر دیا۔ خط میں انتظامیہ اور ایجنسیوں کی مداخلت جیسے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
تحریک انصاف کو ایک موقع ملا جسے وہ کیش کرانے کے لیے فرنٹ فٹ پر آگئی۔ اگرچہ ان کے اپنے دور میں اور اس سے پہلے ان کی سہولت کے لیے ایجنسیوں کے ذریعے جس قدر مداخلت کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی، مگر اس وقت تحریک انصاف خاموش رہی کیونکہ آخرکار فائدہ انہی کو مل رہا تھا۔
بے داغ اور صاحب کردار سابق جج تصدق جیلانی کی نگرانی میں کمیشن کو اس خط کی تحقیقات کرکے حقائق سامنے لانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا مہم نے انہیں انکوائری سے معذرت کرنے پر مجبور کردیا۔
جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مطالبے پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔ یعنی ایک پارٹی کا سوشل میڈیا اتنا مضبوط ہوگیا کہ وہ سپریم کورٹ جیسے معتبر اداروں کو بھی دباؤ میں لا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کہنا پڑا، ’ انکوائری کمیشن بنا تو تصدق جیلانی پر ذاتی حملے کیے گئے‘۔ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی پیسوں کے لیے نہیں کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر جو باتیں ہوئیں مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا اور تصدق جیلانی پر بے جا تنقید سن کر انہیں شرم آئی۔ ایسے ایسے الزامات لگے کہ ہمیں انہیں نامزد کرکے شرمندگی ہوئی، پتا نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ‘
چیف جسٹس کو شرمندگی ہوئی مگر پاکستان تحریک انصاف مسلسل ڈھٹائی سے کام لیتی رہی کیونکہ انہیں ایسی کسی بات سے کوئی شرمندگی نہیں اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کبھی کسی قسم کی ندامت کا اظہار کیا ہے۔
جب 7 رکنی بنچ بن گیا تو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء بیرسٹر گوہر خان نے ازخود نوٹس کو خوش آئند قرار بھی دیا اور پھر فل کورٹ کا بھی مطالبہ کردیا۔ جس پر دوبارہ سپریم کورٹ نے عندیہ دیا ہےکہ فل کورٹ بھی بنا دیا جائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ اب عدلیہ جیسے ادارے بھی پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے دباؤ میں آکر ان کی مرضی کے مطابق بینچ بنائیں گے اور ممکن ہوا تو فیصلے بھی کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی 10 باتیں مان لیں اگر 11 ویں نہیں مانی تو بانی پی ٹی آئی ملک میں فساد کھڑا کردیں گے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے درست کہا ہے، ’پتا نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔‘