اچانک مختلف اطراف سے شدید فائرنگ شروع ہوئی اور چند سیاسی کارکنوں کی لاشیں اسٹیج کے قریب گریں، لیکن پارٹی سربراہ کا بھاگنا یا چھپنا تو دور کی بات ہے وہ جھکا تک نہیں بلکہ اسٹیج پر مائیک کے سامنے بدستور ڈٹ کر کھڑا بھی رہا اور گرجتا بھی رہا۔
کسی نے لپک کر اپنے لیڈر کو بچانے اور محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کی کوشش کی تو اس کا ہاتھ جھٹک کر گرجدار لہجے میں کہا ’میرے کارکنوں کی لاشیں گر رہی ہیں اور تم مجھے بھاگنے کا کہہ رہے ہو‘۔
یہ وہی منظر تھا جسے لیاقت باغ فائرنگ کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس واقعے میں برستی گولیوں کے درمیان ڈٹ جانے والے لیڈر ولی خان تھے۔
ایک اور منظر سامنے ہے ۔۔
آدھی رات کو فوجی دستہ وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوا اور منتخب وزیر اعظم پر بندوقیں تان لیں۔ وزیر اعظم فون کی طرف لپکے اور فوجی سربراہ سے گرج کر کہا ’جنرل یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
مکار جنرل نے جواب دیا ۔۔۔ ’سر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘۔
اگلے دنوں میں مشکل ترین حالات کے شکار اور پابند سلاسل معزول وزیراعظم نے خوفناک ڈکٹیٹر سے یہاں تک کہا کہ ’میں تمہاری مونچھوں سے جوتوں کے تسمے بنا کر دکھا دوں گا‘۔
عینی شاہدین کے مطابق پھانسی کی رات بھی وہ لمحہ بھر کو کسی خوف اور شکست کا شکار نظر نہیں آئے بلکہ کتاب پڑھتے اور سگار پیتے رہے۔ یہ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے اور ان کے مقابل فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی تاریخ ہے۔
آگے بڑھتے ہیں ۔۔
فوجی مارشل لا اپنے عروج پر تھا اور ضیاء الحق کا قہر برس رہا تھا۔ پارٹی سربراہ کا عدالتی قتل کیا جا چکا تھا۔ پیپلزپارٹی کے کارکن کو چوکوں اور چوراہوں میں ٹکٹکیوں پر باندھا گیا اور ان پر کوڑے برسائے گئے۔
کئی سو کارکن جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ نصرت بھٹو سمیت تمام پارٹی لیڈر شپ یا تو گھروں میں نظر بند تھی یا پابندِ سلاسل کی جا چکی تھی۔
اس دہشت بھرے سناٹے میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو اپنی ایک سیاسی کارکن (غالباً یاسمین نام تھا) کے ساتھ تھیں۔ پولیس نے بے نظیر بھٹو کو واپسی کا حکم دیا جب کہ ان کے ساتھ آنے والی خاتون کارکن کو گرفتار کرنا چاہا۔ ایسے میں بے نظیر بھٹو ڈٹ گئیں اور کہا کہ پہلے مجھے گرفتار کرو ورنہ میں اپنی کارکن کو اکیلے نہیں چھوڑوں گی۔
بات بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک پہنچی لیکن بے نظیر پیچھے نہیں ہٹیں، بالآخر پولیس ہار مان گئی اور بے نظیر بھٹو اپنی ساتھی کارکن کو لے کر روانہ ہوگئیں۔
مزید آگے بڑھتے ہیں ۔۔
شام ڈھلے آئین کو روند کر اور وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کر فوجی دستے اندر داخل ہوئے تو دو طاقتور جرنیل پستول پکڑے رعونت کے ساتھ منتخب وزیراعظم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور استعفے پر دستخط کرنے کا ’حکم‘ دیا۔ لیکن وزیراعظم نے بندوقوں کے لہراتے سائے میں لاپروائی سے کافی کا سپ لیا اور اس تاریخ ساز جملے کے ساتھ انکار دیا ’over my dead body‘۔ نتیجتاً انہیں قید و بند ہی نہیں جلا وطنی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس منتخب وزیر اعظم کا نام میاں نواز شریف تھا اور اس کے مقابل فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف تھے۔
ماضی میں کچھ اور جھانک آتے ہیں۔۔
سادہ اطوار قوم پرست بوڑھے باچا خان نے سیاسی بنیادوں پر زندگی کے لگ بھگ پینتیس برس زندان کی نذر کر دیے، لیکن اپنے سخت جان اور دلیر کارکنوں کو مشکل حالات میں بھی ہمیشہ پُر امن رہنے اور قانون کی پاسداری کا سبق پڑھاتے رہے۔
پولیس گرفتار کرنے آتی تو انہیں حجرے میں بٹھا کر چائے پلاتے، گھر جا کر کپڑے تبدیل کرتے اور اپنے کارکنوں سے ہاتھ ملا کر تانگے پر بیٹھتے اور جیل کا رُخ کرتے۔
نواب خیر بخش مری سے لیکر غوث بخش بزنجو تک اور جی ایم سید سے لیکر غلام احمد بلور تک دلیری اور اعلیٰ ظرفی کی یہی قابلِ فخر سیاسی تاریخ رہی ہے۔ یہ قانون (خواہ جیسا بھی ہو ) کے احترام اور پُر امن سیاسی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
سیاسی لیڈروں ہی پر کیا موقوف دانشوروں، صحافیوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی مشکل ترین حالات میں اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے اپنے مؤقف پر ڈٹ رہنے کی تاریخ رقم کی ہے۔
پشتو اور انگریزی زبان کے بے بدل لکھاری، مشہور ترقی پسند شاعر اور صحافی قلندر مومند نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ایوبی مارشل لا کے دوران نوجوان ترقی پسند رہنما حسن ناصر مرحوم ہمارے ساتھ پابند سلاسل تھے۔
حسن ناصر کا تعلق ایک با اثر امیر خاندان سے تھا لیکن ان کی خاندانی امارت اور رسوخ انہیں اپنے نظریے سے الگ نہ کر سکا۔ وہ ایک دلربا دلیری کے ساتھ جیل کاٹتے اور موت کے قریب سے قریب تر ہوتے رہے، یہاں تک کہ آمریت کی ایک تاریک رات وہ اپنے نظریے پر قربان ہو گئے۔ مشکل حالات کے باوجود اس خوبرو جوان نے ’دشمن‘ کو کبھی اپنے اعصاب پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ شاہی قلعے میں تشدد کی موت سے پہلے حسن ناصر کی نظریاتی رومانویت اور بلند بانگ قہقہوں میں کبھی کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
فیض احمد فیض کو پولیس جیل کی پھاٹک سے تانگے پر بٹھا کر عدالت لے جانے لگی تو روڈ کے دونوں اطراف لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ شاعر کے ہونٹوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ ابھری اور سڑک کنارے کھڑے لوگوں نے حوصلہ مند شاعر کے لیے تالیاں بجائیں۔ اس منظر نے بعد میں ایک دلفریب نظم کی شکل اختیار کرلی:
آج بازار میں پا بجولاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
پھر اس شاندار اور قابل ستائش سیاسی تاریخ کو جانے کس کی نظر لگ گئی کہ سیاسی منظر نامے پر عمران خان اپنی پی ٹی آئی سمیت نمودار ہوئے ۔۔۔ گالم گلوچ، الزام، دشنام، بہتان، مکر و فریب اور کذب و ریا سے ایک ایسی سیاسی جماعت ترتیب پائی جسے نہ سیاسی تاریخ کا علم ہے اور نہ ہی تابناک سیاسی مزاحمت کا۔
گرفتاری کے دھڑکے اور جیل جانے کے ڈر نے جو ’سیاسی مزاحمت‘ تشکیل دی وہ اس بیانیے پر مشتمل تھی کہ ’وہ گرفتار کرنے آ رہے ہیں۔ سب جلدی زمان پارک پہنچو۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فون کرو کہ بندے نہیں لاؤگے تو ٹکٹ نہیں ملے گا‘۔
سادہ سی بات تھی کہ اسلام آباد کی عدالت نے گرفتاری کا حکم دیا تو چاہیے تھا کہ سیاسی روایت کے مطابق عمران خان اپنے گھر سے باہر آتے، پولیس والوں سے ہاتھ ملاتے، اکارکنان کو پُر امن رہنے کی تلقین کرتے، فتح کا نشان بناتے اور ایک لیڈر کے شایانِ شان مسکراتے ہوئے پولیس وین میں سوار ہوجاتے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس (سیاست) کا کیا بنتا جس کی بنیادیں شاندار سیاسی روایات کی بیخ کنی، تہذیبی تباہی، آئین و قانون کو ملیامیٹ کرنے اور اداروں کو اپنے مفادات کا تابع نہ کر پانے کی صورت میں انہیں دھمکیاں دینے اور ٹھکرانے پر استوار ہیں۔ سو عمران خان وہی کچھ کر بیٹھے جو اُن کا مزاج اور پی ٹی آئی کی سیاست کا تقاضا تھا۔
ادھر پولیس عدالتی حکم کا پروانہ لےکر پہنچی اور ادھر ’لیڈر‘ نے واویلا مچا دیا کہ جلدی جلدی پہنچو ورنہ پولیس والے مجھے جیل لے کر جائیں گے۔ اور پھر کارکنان کا غول امڈ آیا جنہیں نہ آئین و قانون سے کوئی سروکار ہے نہ عدالتی حکم کا احترام، نہ اداروں کی تکریم ہے اور نہ ہی تابناک سیاسی روایات کا پاس۔ نتیجے میں جو ہنگام برپا ہوا اس نے پاکستان کو دنیا بھر میں تماشا بنا دیا۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کو تراشنے والے سوچتے تو ہوں گے کہ پچھتر سال سیاستدانوں کے ساتھ مخاصمت میں گزار دیے۔ اس طویل دورانیے میں قید و بند کا سامنے کرنے والے باوقار لوگ تھے لیکن اب کی بار یہ کس قبیل کے لوگوں سے واسطہ پڑا جو وقار اور وضع داری کے معنی بھی نہیں جانتے ۔۔ ٹکر تو دور کی بات ہے۔