دنیا میں 5 گلابی مساجد ہیں، ایک کاسابلانکا (مراکش)، دوسری شیراز (ایران)، تیسری بنتن (انڈونیشیا)، چوتھی داتو سعودی امپاتوان (فلپائن) اور پانچویں پتراجایا (ملائیشیا) میں واقع ہے۔
دسمبر 2011 کے پہلے ہفتے میں ملائیشیا سے واپسی کا آخری روز تھا، جب پتراجایا میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ پتراجایا (Putrajaya) 1995 میں 5 ہزار ہیکٹر پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے بسایا گیا شہر ہے جو دارالحکومت کوالالمپور کے جنوب میں 25 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
پتراجایا ملائیشیا کا وفاقی انتظامی مرکز ہے۔ شہر کا نام ملائیشیا کے پہلے وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان پترا الحاج کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پترا کے معنی بیٹا اور جایا کا مطلب ہے کامیابی یا فتح، یوں پتراجایا کا مطلب ہے فاتح مرد۔
دنیا بھر میں پتراجایا کی پہچان پترا مسجد ہے جو گلابی رنگ، جدت اور خوبصورتی کی بدولت دنیا کی مشہور مساجد میں سے ایک ہے۔ پترا اسکوائر کے سامنے واقع یہ مسجد 1997 اور 1999 کے دوران پتراجایا جھیل میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد کا ڈیزائین نیک محمد نے دنیائے اسلام کی اہم مساجد کا دورہ کرنے کے بعد تیار کیا تھا۔
پترا مسجد صفوی دور کے فن تعمیر کا جدید شاہکار ہے، اگرچہ اس کی تعمیر میں دنیا بھر کی مساجد سے کچھ نہ کچھ مستعار لیا گیا ہے۔ مسجد کے انفارمیشن کاؤنٹر سے دستیاب معلومات کے مطابق مسجد کی دیواریں مراکش کی شاہ حسن مسجد جبکہ 116 میٹر بلند مینار بغداد کی شیخ عمر مسجد سے ملتا جلتا ہے۔ تعمیر میں استعمال کیے گئے گلابی گرینائٹ کی نسبت سے مسجد کو گلابی مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
مسجد میں نماز کے لیے 12 ستونوں پر مشتمل مرکزی ہال، مذہبی تعلیم کے کلاس رومز، لائبریری، ریسرچ سینٹر، گیلری ہال، سیمینارز اور گفتگو کے لیے کشادہ نشستوں والا ہال اور فنکشن رومز بھی موجود ہیں۔ نمازیوں کے لیے کھانے پینے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ 15 ہزار نمازیوں کی گنجائش والی مسجد صحیح معنوں میں معاشرت گاہ کا کردار نبھا رہی ہے۔
پترا مسجد جس جھیل میں تعمیر کی گئی ہے، وہ جھیل بھی انسانی ساختہ ہے۔ 650 ہیکٹر پر محیط پتراجایا جھیل کو شہر کے لیے قدرتی ٹھنڈک کی فراہمی کے لیے بنایا گیا تھا۔ جھیل کی اوسط گہرائی 6.60 میٹر ہے۔
مسجد کے سامنے واقع پترا اسکوائر کو پتراجایا کا مرکز کہا جاسکتاہے۔ پترا اسکوائر کو ملائیشیا کے یوم آزادی کی پریڈ سمیت دیگر قومی تیوہاروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 300 میٹر کے دائرے پر مشتمل پترا اسکوائر میں پردانہ پترا (وزیراعظم آفس)، پترا مسجد، پترا برج اور شاپنگ مال موجود ہیں۔
مسجد کے چھوٹے بڑے 9 گنبد ہیں۔ 36 میٹر قطر کے مرکزی گنبد کی اونچائی 160 فٹ ہے جبکہ اس کے اردگرد 8 دیگر چھوٹے چھوٹے گنبد بھی بنائے گئے ہیں جو چھت کی شان و شوکت بڑھاتے ہیں۔ گنبد کی نوکدار کھڑکیاں اور بلند و بالا مینار اسلامی طرزِ تعمیر کا عکاس ہے۔
شیشے کی دیواریں مرکزی ہال کو قدرتی روشنی سے اجالتی ہیں۔ ہال میں بچھے خوبصورت اور دبیز قالین پر پاؤں ہلکے سے دھنستے ہیں۔ مرکزی ہال میں تمام مذاہب کے لوگ داخل ہوسکتے ہیں لیکن انہیں منبر کے قریب جانے کی اجازت نہیں ہے۔ آویزاں سرخ فیتے کی مدد سے غیر مسلم کے لیے حد بندی بھی کی گئی ہے۔
منبر و محراب بھی جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔ منبر کی بلند محراب پر اسلامی خطاطی دیکھنے والوں کی توجہ طلب کرتی ہے۔ بیش قیمت لکڑی سے بنے منبر کی سیڑھیاں ایک بلند مقام فراہم کرتی ہیں جس کے اوپر سنہری گنبد بنایا گیا ہے۔
مسجد کی گزر گاہیں، صحن اور پچھواڑہ خوبصورت کیاریوں، گملوں اور دیدہ زیب پودوں سے آراستہ ہیں۔ جوتے رکھنے کے لیے لوہے کے ریک بنائے گئے ہیں، جن کا استعمال بالکل مفت ہے۔ صفائی کا انتظام و انصرام قابلِ داد ہے۔ واش رومز اور وضو خانہ کی صفائی ستھرائی دیکھ کر مسجد کے بجائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا گمان گزرتا ہے۔
تمام مذاہب اور عقائد کے زائرین کو مسجد میں داخلے کی اجازت ہے، تاہم مسجد کے احترام کے لیے غیر ملکی خواتین کو سر ڈھانپنا اور جسم پر عبایا پہننا لازمی ہے، جو مسجد کے انفارمیشن کاؤنٹرز سے بلا معاوضہ فراہم کیے جاتے ہیں۔
مسجد کی تعمیر پر اڑھائی کروڑ ملائیشین رنگٹ خرچ ہوئے تھے اور اس کا افتتاح 25 جون 1999 کو جمعے کے دن کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اہلیہ، حکومتی عہدیداروں اور قریباً 15 ہزار نمازیوں کے ہمراہ نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اس روز مجھے بھی اپنے دوست ارشد عباسی کے ہمراہ پترا مسجد میں نمازِ ظہر ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا:
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں