ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، یہ فطرت کا اصول ہے اور یہی زندگی ہے کہ کبھی سب کچھ ایک جیسا نہیں رہتا۔ کچھ سال پہلے مجھے عید کا تہوار سخت بور محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ میں حیران تھا کہ پورا سال جس تہوار کا انتظار کرتے تھے، وہ اب بے مزہ کیوں لگتا ہے۔ غور کیا تو علم ہوا کہ تہوار ویسا ہی ہے، ہم بدل گئے ہیں۔ عمر مزے کرنے کے بجائے ذمہ داریوں کی متقاضی ہے۔ ذمہ داریوں کو نبھانا آسان نہ ہو تو وہ بوجھ بن جاتی ہیں۔ سر پر بوجھ ہو تو کسی نے کیا خاک مزہ کرنا ہے۔ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ بچے خوش ہوتے ہیں، انہیں عیدی ملتی ہے۔ نئے کپڑے ملتے ہیں۔ مزے مزے کے کھانے اور آزادی کا احساس ملتا ہے۔ اسکول جانے اور ہوم ورک کرنے سے آزادی۔
میرا بچپن چونکہ ننھیال میں گزرا ہے اس لیے میری عیدین کے حوالے سے یادیں بھی زیادہ وہیں کی ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے تو بے اختیار لبوں پہ ہنسی آجاتی ہے۔ میں نے قران شریف اپنے نانا جی سے پڑھا ہے۔ مجھے صبح سویرے اُٹھنا عذاب لگتا تھا۔ مگر اُٹھنا تو پڑھتا ہی تھا۔ وضو کرنا اور پھر قرآن شریف پڑھنا، زبانی صورتیں سنانا معمول تھا۔ عید کے روز میں کہا کرتا تھا آج سبق نہیں پڑھوں گا،آج عید ہے۔ سویرے سویرے تیار ہو کر عیدگاہ جانا، نماز پڑھنا۔ چھوٹی عید پر سوّیاں یا کوئی اور میٹھی چیز کھانا اور پھر نئے نکور نوٹوں کی عیدی لے کرپھولے نہیں سماتے تھے۔ مسجد کے محراب کی طرف چوک بنتا تھا۔ وہاں اقبال للاری کے آلو چھولے اور کٹھی چٹنی والی چاٹ، پھر غلام رسول للاری کا سوّیوں والا قلفہ میری پسندیدہ ترین تفریح تھی۔ ہر عید پر قریبی گاؤں آدم دراز کے ٹبے پر گلمن غازی (غالب غازی) کے مزار پر میلہ لگتا تھا۔ جھولے لینا، ڈھولوں کی تھاپ پر دھمال دیکھنا۔ یا پنگوڑوں پر جھولتی ناریوں کے رنگ برنگے آنچلوں کے ساتھ خوابوں خیالوں میں اُڑنا اپنی جگہ مگر پچھلے پہر ہونے والی کبڈی کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس زمانے میں میرا خواب بھی کبڈر بننا ہی تھا۔ جب کوئی کبڈر جاپھی کی پہنچ سے نکل کر دھائی کو پار کرتا، جاپھی کبڈر کا گھٹنا پکڑ لیتا یا قینچی مار کر قابو کر لیتا تو میدان میں بجنے والی تالیاں اور للکارے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
پتا نہیں اس بات کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہوگا مگر دیگر منصوبوں کے ساتھ میرے دو ہی بڑے شوق ہوتے تھے۔ ایک میلے سے پستول خریدنا اور دوسرا بانسری۔ وقت گزرنے کے ساتھ نہ پستول کا شوق رہا نہ بانسری بجانا آیا۔ لیکن سُر کا گیان موسیقی کے گُنی لوگوں کی صحبت کے طفیل کسی حد تک قدرت نے دان کر دیا۔
چوتھی پانچویں میں تھے کہ گاؤں میں بجلی آئی ۔ کھمبے ظاہر ہے ٹھیکے دار یا واپڈا کے اہل کار لگاتے ہیں مگر گاؤں کے لوگوں نے بجلی آنے کے چاؤ میں سارے کھمبے خود ہی گڑھے کھود کر گاڑ دیے۔ کھمبے لگ گئے، تاروں سے ان کا آپسی رابطہ ہوگیا تو ایک دن برقی رو بھی دوڑنے لگی۔ سب سے پہلے ماسٹر نزیر گھمن کی حویلی میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھا۔ ماسٹر صاحب کی حویلی میں میلے کا سماں تھا۔ ہم بچوں نے تو حالاتِ حاضرہ کا پروگرام ہفتہ رفتہ بھی اس خشوع و خضوع سے دیکھا جیسے عالم لوہار کا تھیٹر ہو۔
ہمارے گھر میں ٹی وی خریدنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر ایک تو یہ جواز بنایا گیا کہ یہ پڑھے گا نہیں اور دوسرا شاید ٹی وی کو سب لوگ گھروں میں رکھنا مناسب خیال نہیں کرتے تھے۔
ایک اور عزیز ماموں افضل کے گھر ٹی وی تھا۔ عید پر عمومی پابندیاں بھی کچھ نرم پڑ جاتیں لہذا ماموں افضل کے گھر جا کر مزے مزے کے ٹی وی پروگرام دیکھتے۔ پی ٹی وی لاہور، کراچی کے سنٹرز بڑے شوز کرتے۔ عمومی طور پر اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور ڈرامہ پیش کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاہور اور کراچی ڈرامہ نہیں کرتے تھے۔ چونکہ تین دن تک عید چلتی ہے تو عید کے پروگرام بھی اسی حساب سے ترتیب دیے جاتے۔ بعد میں کئی سال گزرے تو خود ٹی وی، ریڈیو کا بطور پروڈیوسر حصہ بننے کا موقع ملا تو علم ہوا خصوصی تہواروں پر پروگراموں کی پلاننگ تو تین ماہ قبل ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جو شو ہم عید کے دنوں میں دیکھتے ہیں ان کی ریکارڈنگ بھی عید سے قبل ہی ہو جاتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی اور پیش کش کی خوب صورتی ہے کہ دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ یہ پروگرام عین عید کے موقعے پر ہو رہے ہیں۔
عید کے پروگراموں میں دلدار پرویز بھٹی، نعیم بخاری، مستنصرحسین تارڑ، کنول نصیر، خوش بخت شجاع ، معین اختر، ضیا محی الدین اور انور مقصود جیسے جیّد فن کار میزبان ہوتے۔ حاضرین کی صفوں میں اس وقت کے نامور فن کار موجود ہوتے۔ حاضرین میں خالد عباس ڈار، طاہرہ واسطی، عظمیٰ گیلانی، ثمینہ احمد، عثمان پیر زادہ، ثمینہ پیر زادہ، شہناز شیخ، مرینہ احمد، بہروز سبز واری، غیور اختر، شعیب ہاشمی، سلیمہ ہاشمی جیسے نامور فن کار اور تخلیق کار براجمان نظر آتے۔
امان اللہ، ببو برال، اَلّن فقیر، عارف لوہار، عارفہ صدیقی، ناہید اختر، اطہر شاہ خان (مسٹر جیدی) خالد عباس ڈار، انور مقصود، انور مسعود، شعیب ہاشمی، مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم، ریشماں، اسد امانت علی خان، حامد علی خان، اے نیّر، عالم گیر، محمد علی شہکی جیسے فن کار سٹیج پر آرہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ کبھی کمپیئر حاضرین کی نشستوں پر جا کر ان سے چیڑ چھا ڑ کر رہے ہیں۔
وہ ایسے پروگرام ہوتے تھے جن کو دیکھ کر ناظرین بھی خود کو ان کا حصہ تصور کرتے۔
اچھی طرح یاد ہے کہ ایک عید پر ایسا ہی شو ریڈیو لاہور نے اپنے ہال میں منعقد کیا۔ سعید سہکی نے مزاحیہ خاکے پیش کیے اور مہدی حسن صاحب نے اپنی گائیکی سے حاضرین و سامعین کو محظوظ کیا۔
جیسا کہ تذکرہ ہو چکا کہ ٹی وی اور ریڈیو مہینوں پہلے عید کے پروگراموں کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے تھے۔ ان پروگراموں میں بچوں، بڑوں، خواتین، دیہی بھائیوں، کسانوں، محنت کشوں، طالب علموں، اسپیشل لوگوں سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی پسند اور نمائندگی کا خیال رکھا جاتا۔
میٹرک کے بعد اپنے گاؤں آیا تو بجلی ابھی نئی نئی آئی تھی۔ جب بجلی نہیں تھی تو رانا ناصر کے گھر بیٹری پر ٹی وی چلتا تھا۔ سالہا سال ان کے گھر گاؤں کے لڑکے بالے ہاکی کرکٹ کے میچ اور رات کا ڈرامہ دیکھتے۔ رانا ناصر کی بھابھی صاحبہ گاؤں کے لڑکوں سے بھی اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح شفقت سے پیش آتیں۔ ان کے خاوند رانا جمیل صاحب ٹی وی دیکھتے ہوئے تبصرہ بھی کر دیا کرتے۔ جبکہ تھوڑا دور بیٹھے وہ خود پان چبا رہی ہوتیں اور ساتھ ساتھ چھالیہ کاٹتی رہتیں۔ ان دنوں کبھی کبھار عید کے دوسرے یا تیسرے دن ٹی وی پر کوئی فلم بھی دکھائی جاتی۔ اس موقع پر ایسے رش ہوتا تھا جیسے کوئی سینما کا شو چل رہا ہو۔
نوے کی دہائی میں ٹی وی نشریات کے دورانیہ میں اضافہ ہوا اور چینلز کی تعداد بھی بڑھی۔ موجودہ صدی کے چند ابتدائی برسوں کے بعد پاکستانی میڈیا میں پرائیوٹ میڈیا کے آنے سے چینلز کی بھرمار ہوگئی۔ معاملات، حالات و واقعات میں غیر معمولی بدلاؤ آگیا۔
سوشل میڈیا کے پروان چڑھنے سے تبدیلی کا دھارا نئے سے نئے رُخ پر گامزن ہے۔ عید کارڈ معدوم ہوگئے ہیں۔ اب عید مبارک کہنے کے انداز و اطوار بھی بدل گئے ہیں۔ آپ سب کو بھی ڈیجیٹل عید مبارک!