کتابیں پڑھنے، مویز یا ڈرامے دیکھنے سے انسان کے ذہن میں مختلف خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ جن کو رہنمائی کے لیے بعض دفعہ عملی زندگی میں لاگو بھی کیا جاتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ انسان ان سے مثبت سبق لے، یہ بھی تو ممکن ہے کہ حقیقت پر مبنی ڈراموں یا کتابوں کی منفی کہانیوں کو شہری بطور شارٹ کٹ عملی زندگی میں لاگو کریں۔
کراچی میں ایسا ہی ایک انوکھا واقعہ سامنے آیا جس کی کہانی بھارتی ویب سیریز ’اکڑ بکڑ رفو چکر‘ سے مشابہت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں
فرق صرف اتنا ہے کہ ویب سیریز میں جعلی بینک بنا کر شہریوں کو لوٹا گیا جبکہ کراچی میں ایسا دفتر بنایا گیا جس کا کام بظاہر فی کس کم سے کم اڑھائی لاکھ روپے جمع کرکے انہیں ملک سے باہر بھیجنا تھا۔
متاثرین کا کارروائی کے لیے ایف آئی اے سے رجوع
اس ڈرامے کی حقیقت تب سامنے آئی جب سعودی عرب لے جانے والی نجی کمپنی کے خلاف متاثرین نے قانونی جارہ جوئی کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دی۔
درخواست میں متاثرین کی جانب سے نجی کمپنی کی انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی اور کہا گیا ہے کہ ہمارے پاسپورٹس سمیت دیگر دستاویزات نجی کمپنی کے پاس ہیں۔
پولیس کے مطابق نجی کمپنی کے خلاف کارروائی کے لیے متعدد نوجوانوں نے درخواستیں دی ہیں جس کی تفتیش جاری ہے۔
ہم سے رقم ہتھیانے کے بعد کمپنی کے دفتر کو تالا لگا دیا گیا، متاثرین
متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ ڈیفنس فیز 8 میں نجی کمپنی نے سعودی عرب اور دبئی میں ملازمت کے لیے نوجوانوں سے رقم لی، آج کمپنی کے دفتر میں ملک سے باہر جانے کے لیے دستاویزات لینے پہنچے تو آگے تالہ لگا ہوا ہے۔
ان متاثرہ افراد کی تعداد 80 کے قریب بتائی جا رہی ہے جبکہ نجی کمپنی مختلف امیدواروں سے کم از کم 2 کروڑ روپے بٹور کر ’اکڑ بکڑ رفو چکر‘ ہوگئی ہے۔