پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی شراکت داری

بدھ 17 اپریل 2024
author image

ڈاکٹر راسخ الكشميری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پے در پے وفود کا تبادلہ اور ملاقاتیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ دونوں ملک تیزی سے اپنے اپنے اہداف کی طرف گامزن ہیں، نیز وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک میں گرمجوشی نظر آرہی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے 2022 اور پھر 2024 میں اپنی پہلی تقریر میں ہی سعودی عرب کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نئی اقتصادی سمت دینے کی بات کی تھی۔

اسی طرح سعودی عرب سے آئے وفود میں شامل شخصیات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں کیے گئے اقتصادی وعدوں کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان میں عملی طور پر ایک مستقر حکومت براجمان ہوتی۔

سعودی اور پاکستانی وفود کا تبادلہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی نگراں حکومت میں ہی شروع ہو گیا تھا، جو شہباز شریف کی رمضان 1445 ہجری میں سعودی عرب کے پہلے دورہ سے پختہ ہوا، اور حالیہ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں سعودی وفد کا دورہ آگے بڑھ رہا ہے، اور کہا جا سکتا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کا یہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

حالیہ سعودی عرب کے وفد میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں سعودی وزیر صنعت و معدنی وسائل بندر ابراہیم بن عبد اللہالخریف، نائب وزیر برائے سرمایہ کاری انجینئیر ابراہیم بن یوسف المبارک، سعودی خصوصی کمیٹی کے سربراہ محمد التویجری، وزارت توانائی اور سعودی فنڈ برائے تعمیر و ترقی کے سینیئر عہدیدار، وزیر برائے ماحولیات و آبی وسائل وزراعت انجینیئر عبد الرحمٰن بن عبد المحسن الفضلی شامل ہیں۔ ان ناموں اور عہدوں سے عیاں ہو رہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی شراکت داری کی نوعیت کیا ہوگی۔

اس دورے کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت ہونے والے مذاکرات میں اپنے اپنے ممالک کے وفود کی قیادت کی۔

یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ سعودی وزیر خارجہ کے وفد کے بعد 16 اپریل کو سعودی عرب کے معاون وزیر دفاع بھی ایک وفد کے ہمراہ پاکستان آئیں گے، جس کا مقصد دفاعی تعاون سے منسلک منصوبوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ محمد بن عبد الکریم العیسیٰ بھی پاکستان کے نو روزہ دورے پر تھے، انہوں نے شاہ فیصل مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھائی، پاکستانی قیادت اور علما سے ملاقاتیں کیں، اور کنونشن سینٹر میں منعقد تقریب میں خطاب کیا جس میں وزیراعظم شہباز شریف بھی شریک تھے، اور وہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی اور رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ سے عربی زبان میں مخاطب ہوئے، جس میں انہوں نے سیرت میوزیم کا سنگ بنیاد رکھنے پر شکریہ ادا کیا۔

مذکورہ بالا باتوں سے ایک بات عیاں ہو رہی ہے کہ اس دفعہ پاک سعودی تعلقات کثیر الجہتی ہوں گے، جن پر برق رفتاری سے کام ہو رہا ہے، سعودی وزیر خارجہ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تشریف لائے ہیں، جبکہ معاون وزیر دفاع، دفاعی معاہدوں کو آگے بڑھائیں گے، اور رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ محمد العیسیٰ ثقافتی پس منظر کا دورہ کرکے واپس اپنے وطن سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں۔

یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ سعودی ولی عہد کا ممکنہ دورہ مزید تعاون پر مشتمل ہو اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اقتصادی تعاون میں نئی جہتیں تلاش کرکے ان پر کام کیا جائے، بر سبیل مثال سعودی عرب فٹبال میں پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے، جہاں 172 سے زیادہ رجسٹرڈ ٹیمیں فٹ بال کھیلتی ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان دنیا بھر میں فٹبال بنانے میں پہلے نمبر پر ہے، جبکہ یہاں سپورٹ کی مصنوعات بھی بنتی ہیں، اس سلسلے میں پاکستان سعودی عرب میں فٹبال کی کھپت اور ضروریات پوری کر سکتا ہے، بالمقابل پاکستان فٹبال کے میدان میں سعودی عرب کی مدد حاصل کر سکتا ہے، مشترکہ پروگرام ڈیزائن کیے جا سکتے ہیں جن سے پاکستان میں فٹبال کے دیوانے خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان چونکہ دنیائے کرکٹ میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، وہ سعودی عرب کی کرکٹ ٹیم کو بہم خدمات پیش کرسکتا ہے، فٹبال کی طرز پر کرکٹ تبادلہ پروگرام ڈیزائن کیے جا سکتے ہیں جن سے سعودی عرب کی کرکٹ ٹیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

میڈیا ایک ایسا اہم پہلو ہے جسے در گزر نہیں کرنا چاہیے، اس میں بھی تعاون کی صورت موجود ہے، جس کی بنیاد پر سعودی عرب کی آواز اردو قارئین اور پاکستان کی آواز عربی قارئین تک پہنچائی جا سکتی ہے، یہ تعاون دونوں ملکوں کے عوامی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، وہ غلط فہمیاں دور کی جا سکتی ہیں جنہیں منفی پروپیگنڈا کرنے والے کردار ایندھن کےطور پر استعمال کرتے ہیں، پاک سعودی تعلقات میں وسیع پیمانے پر کثیر الجہتی تعاون ممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک میں بیٹھے ماہرین ان نئی جہتوں کو تلاش کرکے قدم آگے بڑھائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp