‘دوپہر کا وقت تھا، لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جس کے عین بیچ میں ایک ایمبولینس دھیمی رفتار سے چل رہی تھی گویا پیدل چلنے والوں کے قدم سے قدم ملا کر چلتی ہو۔ ایمبولینس میں ایک میت رکھی تھی جسے اس کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کے سفر آخرت پر روانہ کرنے کے لیے ہم رکاب تھی۔
جیسا کہ ہوتا ہے، جنازے کے ساتھ چلنے والوں میں سے کوئی پکارتا ہے:’ کلمہ شہادت’۔
پھر اس کے جواب میں ‘اشہد ان لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔’ کی صدا بلند ہوتی ہے۔ ابتدا میں پورے جوش کے ساتھ بہ آواز بلند اس کے بعد بہ تدریج دھیمی پڑتی ہوئی۔
کچھ ایسا ہی ماحول تھا، جب گہرے سبز رنگ کی ایمبولینس نے دو تین ہچکیاں لیں اور چند غراہٹوں کے بعد بند ہوگئی۔
یہ اس فیلڈ مارشل کا جنازہ تھا جو اس ملک کی فوج کا پہلا پاکستانی سپہ سالار، پہلا ڈکٹیٹر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نیز دوسرا صدر تھا۔’
جسے ایک دنیا جنرل محمد ایوب خان کے نام سے پہچانتی ہے جس نے 14 اگست 1947 کو پہلی بار ایک بڑا خواب دیکھا تھا، ملک کی مسلح افواج کی کمان سنبھالنے کا خواب۔ پھر چار برس بعد جنرل نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کروا لیا۔
جب مسلح افواج کی کمان سنبھال لی تو پھر اس نے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک، پورے ملک کا مطلق العنان حکمران بننے کا خواب دیکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ خواب بھی اگلے ہی روز پورا ہوجائے لیکن اس میں کچھ دیر لگی لیکن پھر وہ دن بھی آگیا جب وہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہہ رہا تھا’ آج سے یہ پورا ملک اور یہ پوری قوم میری مرضی کے مطابق ہی زندگی بسر کرے گی۔‘
پھر جنرل نے ملک میں رائج پارلیمانی نظام کو اپنی مٹھی میں لے لیا،اور اسے کھینچ کے دیوار کے ساتھ دے مارا۔اور اپنی پسند کا ایک سیاسی نظام رائج کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس میں بھی وہ کامیاب ٹھہرا۔
اس کی مطلق العنانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتا تھا، چاند بھی اس کی مرضی سے طلوع ہو۔ جب لوگوں نے کہا کہ چاند اللہ کی مرضی سے طلوع ہوچکا ہے، اس نے غیظ و غضب سے پھنکارتے ہوئے کہا کہ چاند اسی روز ہی طلوع ہوگا جب میں کہوں گا۔ اور پھر اس نے اختلاف کرنے والوں سے جیلیں بھر دیں۔
جنرل سیاست دانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کو تین میں شمار کرتا تھا نہ تیرہ میں۔ وہ اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقوام کو تحقیر کا نشانہ بناتا۔ جو بھی اس کے طرز حکومت پر تنقید کرتا، اسے غدار وطن قرار دیتا۔ حتیٰ کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی۔ ایسا مطلق العنان کہ خدا کی پناہ!
اور پھر اس مطلق العنان کی زندگی میں ایک ایسا دن بھی آیا جس کا احوال ممتاز صحافی، تجزیہ نگار ڈاکٹر فاروق عادل نے اپنی کتاب ‘جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے’ میں نہایت دلچسپ انداز میں لکھا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر مطلق العنان کی زندگی کے آخری دن ایسے ہی گزرتے ہیں، وہ تنہا ہوتا ہے اور پھر اسی تنہائی میں موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ پاکستانی جنرل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
‘ دن( انیس اپریل 1974) کا پون بج رہا ہوگا جب ایک ڈاکٹر اپنا بیگ جھلاتے ہوئے فیلڈ مارشل کے گھر پہنچے۔ وہ چاہتے تھے کہ سابق فوجی حکمران کا جو ان دنوں کافی علیل تھے، معائنہ کرکے کوئی نئی دوا تجویز کریں۔ اردلی نے ڈاکٹر کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا اور فیلڈ مارشل کی خواب گاہ کی طرف بڑھا جن کے دن اور رات عام طور پر اب اسی کمرے میں گزرتے تھے۔‘
’دروازہ خلاف معمول بند تھا لیکن بند دروازے کے پیچھے سے ریڈیو کے بجنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔1969 میں اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ سیاست سے لاتعلق ہوچکے تھے اور بہ وجہ علالت و کمزوری ان کی مختلف قسم کی سماجی و خانگی سرگرمیاں بھی محدود تھیں لیکن خبریں وہ اب بھی سنا کرتے، خبروں کے علاوہ سنجیدہ مباحثوں پر بھی توجہ ہوتی۔ہاں البتہ کبھی کبھار ہندکو دھن پر کسی گیت کی سریلی آواز سنائی دیتی تو بوڑھے فیلڈ مارشل کے چہرے پر ذرا سی دیر کے لیے تازگی نمودار ہوجاتی۔‘
’اس روز بھی جب اردلی نے ریڈیو کی آواز سنی تو لحظہ سوچ کر دروازے پر دستک دی، کوئی جواب نہ ملا لیکن ڈاکٹر کا معائنہ چونکہ ضروری تھا، اس لیے وہ احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ فیلڈ مارشل ایک بڑا اور دو چھوٹے تکیے سر تلے لیے اطمینان کی نیند سو رہے تھے۔ اس نے جگانے کی کوشش کی لیکن سونے والے کی نیند زیادہ گہری اور زیادہ پرسکون تھی۔ ایک ایسی نیند جس کی وادی میں داخل ہونے والا کبھی واپس نہیں لوٹتا۔’
جناب فاروق عادل کی کتاب محض ایوب خان پر نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں تاریخ پاکستان کے بہت سے گمشدہ گوشوں کا ذکر کیا ہے۔ قیام پاکستان سے دور عمران خان تک ، یہ ایسے ادوار کا احوال ہے جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے۔ اسے کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن(03000515101 ) نے شائع کی ہے۔
جنرل ایوب خان دیگر اقتدار پسند جرنیلوں کی طرح اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے کسی بھی حد جانے کو تیار رہتے تھے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان دو لخت ہوا تو اس کے تین ذمہ دار تھے: شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان۔ لیکن ایک عرصہ تک کوئی یہ بات زبان پر لانے کی ہمت ہی نہیں کر پایا کہ یہ جنرل محمد ایوب خان ہی تھے جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو کہتے تھے کہ وہ اس گھر(پاکستان) سے نکل جائیں، مغربی پاکستان کی جان چھوڑ دیں۔ اور پھر انہوں نے مشرقی پاکستان والوں کے لیے حالات ایسے پیدا کیے کہ وہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔
جنرل ایوب ان لوگوں میں سے تھے جو صرف اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے تھے، باقی تمام لوگوں کو احمق اور گاؤدی۔ ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب میں ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:
‘ 1962 میں چین نے جب بھارت پر حملہ کیا تو وہ آدھی رات کا وقت تھا۔ رات کے اسی پہر ایک چینی باشندے نے ان سے ملاقات میں بھارت پر چین کے حملے کی خبر دی اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ایوب کو اس خبر میں گہری دلچسپی ہوگی۔
یہ چینی سفارت کاری کا ایک خاص انداز تھا جس کے تحت انھوں نے اپنے پاکستانی دوستوں کو آگاہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا بہترین وقت آ پہنچا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کے مطابق انھوں نے ایوب خان کو جگا کر جب یہ خبر سنائی تو وہ بہت خفا ہوئے اور سخت غصے میں کہا:
‘ تم سویلین لوگ فوجی نقل و حمل کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہو، جاؤ تم بھی آرام کرو، مجھے بھی نیند آ رہی ہے۔’
اس شب ایوب خان پر اگر نیند کا غلبہ طاری نہ ہوتا تو تاریخ کا دھارا مختلف ہوتا۔