پاکستان اس وقت سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، اس ہفتے سعودی عرب کا سب سے بڑا وفد پاکستان کا دورہ مکمل کر کے واپس چلا گیا، جس میں سعودی عرب کی کابینہ کے سینیئر وزرا شامل تھے۔
سعودی عرب کے وفد نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کی جب کہ اب 22 اپریل کو ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی پاکستان کے 3 روزہ دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں، ایرانی صدر کی آمد سے قبل ایرانی نائب وزرا پر مشتمل ایک بہت بڑا ایرانی وفد بھی پاکستان کا دورہ کر چکا ہے، جس نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے اور سرمایہ کاری پر بات چیت کی۔
مزید پڑھیں
امریکی وفد بھی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی چین کے ساتھ پروان چڑھتی ہوئی شراکت داری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، چین پاکستان میں روڈ اینڈ بیلٹ انیشیٹو کے تحت اقتصادی راہداری کے کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
جب پاکستانی دفتر خارجہ میں امریکا اور ایرانی سفارتکار اکٹھے ہو گئے
جمعرات کو اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب دفتر خارجہ میں ایران اور امریکا دونوں کے سفیر ایک چھت تلے موجود تھے، امریکی سفیر ڈونلڈ آرمن بلوم اپنے وفد کے ہمراہ دفتر خارجہ پہنچے جبکہ ایرانی سفیر رضا امیری مقدم اپنے وفد کے ہمراہ پہلے سے ہی دفتر خارجہ میں موجود تھے۔
دونوں حریف ممالک کے سفیروں کی دفتر خارجہ میں علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں طے تھیں۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات پاک امریکا تعلقات، آئی ایم ایف، پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون سمیت دیگر معاملات پر بات چیت کی جبکہ ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کی ایڈیشنل سیکرٹری رحیم حیات قریشی سے ملاقات ہوئی جس میں ایرانی سفیر ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
امریکا، چین، خلیجی ممالک پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، ایمبیسڈر مسعود خالد
پاکستان کی بڑھتی ہوئی سفارتی حیثیت کے بارے میں وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ جب بھی تزویراتی تناظر میں جنوبی ایشیاء کی جیو اکنامک صورت حال کے بارے میں بات ہو گی تو اس میں پاکستان بطور ایک اہم ملک کے سامنے آئے گا۔
جنوبی ایشیاء کے دوسرے ممالک جن میں نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ وغیرہ شامل ہیں وہ اپنے جغرافیے کی وجہ سے اہم ہیں جبکہ پاکستان ان سب ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔
بھارت سمیت وسط ایشیائی ریاستوں کا انحصار پاکستان پر ہو گا
انہوں نے کہا کہ فرض کیجیے 10 سال بعد پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں اور پاکستان بھارت کو وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے لیے راہداری مہیا کرتا ہے تو بھارت سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں کی تجارت کا انحصار پاکستان پر ہو گا اور پاکستان صرف راہداری مہیا کرنے کی مد میں ہی اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔
سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ خلیجی ممالک ہوں، چین یا امریکا سب کو پتا ہے کہ پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا ہے، پاکستان میں ابھی خلیجی ممالک بھی آئیں گے اور وہ ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کیونکہ ہماری بہت ساری ورک فورس وہاں کام کرتی ہے جو ملک میں کثیر زرمبادلہ لے کر آتی ہے۔
سابق سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکا سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں، امریکیوں کو پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مائل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان ایک طرف ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کر رہا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بڑھ رہے ہیں۔
کیا دونوں ملکوں کا ساتھ چلنا قابلِ عمل ہے؟ اس سوال کے جواب میں مسعود خالد نے کہا کہ بالکل چل سکتا ہے اور اب پاکستان کو اپنی خود مختاری کا فیصلہ خود کرنا پڑے گا، اسے اپنے مفاد میں فیصلے لینا پڑیں گے لیکن ایران کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے امریکا کے تعلقات قدرے متاثر ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام خطرات کی زد میں آ سکتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم رئیسی منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ پاکستان کا کر رہے ہیں، سید محمد علی
ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین، امریکا، سعودی عرب، ایران کے وفود کا پاکستان آنا، اپنے وفود کو بھیجنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔اگر مختلف ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری اور مشاورت کے لیے آ رہے ہیں تو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
ایرانی صدر کے دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سید محمد علی نے کہا کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی منصب صدارت سنبھالنے کے بعد کسی ملک کا جو پہلا دورہ کر رہے ہیں وہ پاکستان ہے جس سے پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان کے لیے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا ممکن ہوگا؟، سید محمد علی نے کہا کہ پہلے بھی جب دونوں ممالک کے حالات کشیدہ ہوئے تھے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے دونوں ممالک کے دورے کر کے اپنا کردار ادا کیا تھا اور پاکستان ایران اور سعودی عرب دونوں ملکوں کے لیے قابلِ قبول ہے۔