پیپلز بس سروس میں جعلی نوٹ سے ٹکٹ خریدنے کا جرم ثابت ہونے پر کراچی کی ضلعی عدالت نے گزشتہ ہفتے 2 خواتین کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی، تاہم ایڈیشنل سیشن جج کراچی ویسٹ ارشاد حسین نے دونوں ملزم خواتین کو جیل بھیجنے کے بجائے پروبیشن آفیسر کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
آج جاری ہونیوالے عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق چونکہ دونوں خواتین اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں اور انہوں نے پہلی مرتبہ اس نوعیت کے جرم کا ارتکاب کیا ہے لہذا جیل بھیجے جانے کی صورت میں ان کا پورا خاندان متاثر ہوگا۔
عدالت نے دونوں خواتین کو پروبیشن افسر کریم بخش منگریو کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 10,10 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ دونوں خواتین ایک اچھے شہری بن کر رہیں گی اور ایک سال تک دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گی، اس دوران پروبیشن آفیسر ان خواتین پر نظر رکھیں گے اور یہی جرم دہرائے جانے پر خواتین کو دوبارہ حراست میں لیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے خواتین سے برآمد ہونیوالے ہزار روپے کے 6 جعلی نوٹ اسٹیٹ بینک کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق دونوں خواتین کا موقف تھا کہ ان کا غریب گھرانے سے تعلق ہے جبکہ ایک ملزمہ بیوہ بھی ہے جس کا کوئی کفیل نہیں۔
یوں تو جعلی نوٹ سے خریدوفروخت کا جرم ثابت ہونے پر کم از کم 7 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے لیکن معاشی و سماجی حالات مدنظر رکھتے ہوئے دونوں خواتین ملزمان کو ایک ایک سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
کیس سے متعلق ثبوت میں خواتین ملزمان سے برآمد کیے گئے نوٹوں کو اسٹیٹ بینک نے جعلی قرار دیا تھا، دونوں خواتین کو 21 جنوری 2023 کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف پیپلز بس سروس کے ڈرائیور کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملزم کو پروبیشن آفیسر کے حوالے کیوں کیا جاتا ہے؟
اس حوالے سے قانونی ماہرین بتاتے ہیں کہ مختلف نوعیت کے جرائم کی مختلف سزائیں ہوتی ہیں اور جان بوجھ کر جعلی نوٹ کے استعمال کی سزا کم سے کم 7 برس ہے لیکن عدالت نے ان خواتین کو ایک سال کے عرصے تک پروبیشن آفیسر کے حوالے کیا ہے۔
سابق وکیل سرکار خیرمحمد خٹک کہتے ہیں کہ پروبیشن پیریڈ کو اگر دوسری نظر سے دیکھا جائے تو یہ اصلاح کے لیے ایک موقع ہوتا ہے جو جرم ثابت ہونے پر ایک شہری کو فراہم کیا جاتا ہے، اگر اس دورانیے میں یہ شخص اپنی اصلاح کر لے تو یہ سزا نہیں تصور کی جائے گی.
’معاملہ اگر اسکے برعکس ہو تو پھر اس شہری کو قانونی طور پر مجرم کے طور پر دیکھا جائے گا، اکثر خواتین، بزرگ اور بچے یا نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جن میں عدالت سمجھتی ہے کہ اصلاح کی گنجائش موجود ہے۔‘