بچپن میں ہم کارٹون موویز تو دیکھتے ہی آئے ہیں،لیکن یہ کارٹون بنتے کیسے ہیں؟اس سوال کا جواب کبھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا۔لیکن اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے تیرہ سالہ عبدالاحدخود بھی اینیمیٹر بن گیا۔وہ اتنی کم عمر میں پاکستان کا کم عمر ترین اینیمیٹر کیسے بنا؟ یہ جانیں وی نیوز کی اس رپورٹ میں۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی،جی ہاں! پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں،فقط ضرورت ہے لگن اور جستجو کی۔ ٹیلنٹ کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں۔کبھی کبھار چھوٹے بچے بھی وہ کام کر گزرتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ بھی نہیں کر پاتے۔ یہ کہانی ہے پاکستان کے کم عمر ترین آٹھویں کلاس کے طالبعلم 13 سالہ عبدالاحد کی۔
مزید پڑھیں
اسلام آباد کے رہائشی آٹھویں کلاس کے طالبعلم 13 سالہ عبدالاحد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ میں بچپن میں اپنی فیملی کیساتھ اکثر کارٹون موویز(فلمیں) دیکھنے جاتا تھا۔ میرے ذہن میں اکثر سوال اٹھتا تھا کہ یہ موویز اور کارٹونز بنتے کیسے ہیں؟ اس سوال کو لیکر میں نے اس سے متعلق ریسرچ شروع کردی۔ اس ریسرچ کے دوران میری دلچسپی اینیمیشن میں بڑھتی چلی گئی اور میں نے خود اینیمیٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ میں گوگل پر اس سے متعلق ریسرچ کرتا اور یو ٹیوب پر دنیا کے بہترین اینیمیٹرز پولی ایف جورڈ، پولی گون رنوے وغیرہ کے ٹیوٹوریل دیکھتا اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ میری اس لگن کو دیکھ کر میرے والدین نے بھی مجھے بہت سپوٹ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں الحمدللہ پاکستان کا کم عمر ترین اینیمیٹر ہوں۔
عبدالاحد کو اینیمیشن سیکھتے ہوئے کم و بیش 4 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب وہ جس سکول میں پڑھتا ہے وہاں بھی بچوں کو اینیمیٹرز کی کلاسیں دیتا ہے۔ اس کے علاوہ عبدالاحد پاکستان نیشنل یوتھ کانفرنس، کنیکٹڈ پاکستان کانفرنس سے ینگ ایچیور اور ٹیلنٹ ہنٹ ایوارڈ حاصل کرچکا ہے۔ عبدالاحد نے دیگر بچوں کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی موبائل اور کمپیوٹر پر گیمز وغیرہ کھیل کر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے ایسی مثبت سرگرمیوں میں حصہ لیں جن سے انہیں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکے۔
عبدالاحد کے والد عبدالباسط کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے اس بات کو سمجھیں کہ بچے کیا چاہتے ہیں؟ ان میں کیا کر گزرنے کی صلاحیت ہے، اگر آپ اپنے بچوں کی دلچسپی اور ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے معاون بنیں گے تو کوئی شک نہیں، آپ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا تجربہ میں نے خود کرکے دیکھا ہے۔ عبدالاحد کو جس چیز کا شوق تھا۔ ہم نے اسے اس فیلڈ میں ہر وہ چیز مہیا کی جس کی اسے ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج الحمدللہ پاکستان کا کم عمر ترین ایوارڈ یافتہ اینیمیٹر ہے۔