چین میں کاروبار سے منسلک گلگت بلتستان کے تاجروں کو بارڈر پاس کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟

پیر 22 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک چین بارڈر کھلنے کے ساتھ ہی بارڈر پاس آفس کے باہر گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد کا رش لگ گیا ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کے زیادہ تر افراد کا ذریعہ معاش چائنا میں کاروبار سے منسلک ہے۔

عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے پاک چین بارڈر کافی عرصہ بند رہنے کی وجہ سے چائنا میں کاروبار سے منسلک افراد کا کام مکمل ٹھپ ہوگیا تھا، جس کے سبب انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ایک مہینے میں 2500 رجسٹریشن ہوئیں

ڈپٹی سیکریٹری ہوم کمیل عباس کے مطابق پاک چین بارڈر 20 اپریل 2024 کو کھل گیا تھا  اور بارڈر کے کھلنے کے بعد ہی صرف ایک مہینے میں 2500 رجسٹریشن ہوئیں ہیں اور 1700 کے قریب بارڈر پاس ایشو ہوئے ہیں، جن میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بارڈر پاس ہنزہ ،نگر اور گلگت  چیمبر کے افراد نے حاصل کیا۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کو چائنا جانے کیلیے رجسٹریشن کروانا پڑتی ہے اس کے بعد ہی بارڈر پاس مل ایشو ہوتا ہے۔

مختلف دفاتر کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں

وی نیوز سے بات چیت میں مقامی شہری ظفر عباس نے بتایا کہ بارڈر پاس کی وصولی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، بارڈر پاس کی فیس زیادہ ہے، ایمرجنسی میں بارڈر پاس 8 ہزار کا مل رہا ہے۔ جبکہ نارمل 5 ہزار میں بنتا ہے۔

ظفر عباس کے مطابق یہ بارڈر پاس ایک سال سے کم مدت کا ہوتا ہے۔ تاہم عوام کو بارڈر پاس آسانی سے نہیں ملتا، انہیں کبھی ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور کبھی بینک میں فیس جمع کرنے کے لیے مختلف دفاتر کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔

بارڈر پاس کی 3 کیٹیگریز

ڈپٹی سیکریٹری ہوم کمیل عباس کے مطابق بارڈر پاس کی 3 کیٹیگریز ہیں، پہلا پاس کاروباری افراد کے لیے ہے جو ایک سال کا ہوتا ہے۔ دوسرا ویزٹ پاس ہے جو صرف ایک مہینے کے لیے ہوتا ہے۔ تیسری کیٹیگری ڈرائیورز کی ہے، یہ پاس ایک سیزن کے لیے ایشو ہوتا ہے۔

بارڈر پاس کا حصول آسان بنانا چاہیے

ہنزہ گوجال کے دور افتادہ گاؤں گلمت سے تعلق رکھنے والے علی احمد کا کہنا تھا کہ بارڈر پاس لینے کے لیے ہنزہ سے گلگت میلوں سفر طے کرکے آیا ہوں، رش زیادہ ہونے کی وجہ سے باری کے انتظار میں گھنٹوں آفس کے باہر انتظار کرنا پڑتا ہے ۔

علی احمد  کے مطابق جدید دور میں بھی آن لائن سسٹم نہیں اور بارڈر پاس کے لیے ہر سال آفس کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ ہر سال نیا پاس بنتا ہے جس سے رش  بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ آفس تمام اضلاع میں ہونے چاہییں، تاکہ تمام ڈسٹرکٹ کے لوگ گلگت سفر نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پاس لینے کے طریقہ آسان بنانا چاہیے، کیوں اس پیچیدہ طریقے سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم ویزہ اپلائی کریں اور زیادہ آسانی سے چائنا چلے جائیں۔

آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے

علی احمد کے مطابق آفس میں بھی سفارش کلچر ہونے کی وجہ سے جان پہچان کے بندوں کو آفس بلایا جاتا ہے اور جس کا کوئی جاننے والا نہ ہو اسے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ ہر ضلعے میں  آفس بنائے یا آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے۔

پورے گلگت بلتستان میں صرف ایک ہی پرنٹر ہے

ڈپٹی سیکریٹری ہوم کمیل عباس نے مزید بتایا کہ اس وقت پورے گلگت بلتستان میں صرف ایک ہی پرنٹر ہے، جس کی وجہ سے بارڈر پاس بروقت فراہم کرنے میں اسٹاف کو مشکلات درپیش ہیں۔ اور اسٹاف کی کمی کی وجہ سے صرف گلگت سے ہی بارڈر پاس ملتا ہے تمام ڈسٹرکٹ کے لوگ گلگت آکر ہی بارڈر پاس لے رہے ہیں۔

اگلے سال سے رجسٹریشن کا عمل آن لائن متعارف کروایا جائے گا

انہوں نے مزید بتایا کہ دور دراز علاقوں سے آنے والے خاص کر ہنزہ ،نگر ،سکردو کے عوام جنہیں مشکلات کا سامنا ہے، ان کے لیے ڈیپارٹمنٹ کو تجاویز دی ہیں،  اگلے سال سے رجسٹریشن کا عمل آن لائن متعارف کروایا جائے گا۔ خواہشمند افراد آن لائن فارم پر کرکے اپنے کاغذات ٹی سی ایس کے ذریعے ہمیں ارسال کریں گے اور پاس حاصل کریں گے۔

انہوں نے مزید  بتایا کہ ایمرجنسی بارڈر پاس کی فیس 8000 روپے ہے اور نارمل پاس جو 20 سے 25 دن میں پاس بنتا ہے, کی فیس 5000 روپے جب کہ  گورنمنٹ آفیسرز کے لیے یہ فیس 3000 روپے ہے۔

مال کی لاگت سے دگنا ٹیکس لیا جارہا

اعجاز احمد چائنا کے کاروبار سے منسلک ہیں، نے بتایا کہ گلگت بلتستان حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہاں کے کاروباری افراد کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ کبھی کلیرنس کے نام پر ٹیکس لیا جاتا ہے تو کبھی جگہ جگہ ٹیکس دیے کر مال لانا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مال کی لاگت سے دگنا ٹیکس لیا جارہا، جس کی وجہ سے چائنا کاروبار سے منسلک افراد کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اعجاز احمد کے مطابق نہ بارڈر پاس کا بہتر نظام ہے اور نہ ہی کاروباری افراد کے لیے چائنا کاروباریوں کو سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔

چائنا حکومت سے ایگریمنٹ کیا جائے

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے بہتر اقدامات اٹھائے، چائنا حکومت سے کاروباری افراد کے لیے مستقل اگریمنٹ کرے تاکہ کاروباریوں کو درپیش مشکلات میں کمی لائی جاسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp