ہندو جم خانہ کی ملکیت کے معاملے پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی، وکلا کی جانب سے مزید مہلت طلب کی گئی، اس دوران عدالت نے ہدایت کی کہ سندھ حکومت، ناپا، درخواست گزار و دیگر فریقین نے اپنی تجاویزعدالت میں جمع کرائیں، آپ کی تجاویز کے بعد دیکھیں گے سماعت کریں یا پھر فیصلہ دیں۔ سپریم کورٹ نے عمارت کا قبضہ ناپا کو دینے کا عندیہ دے دیا۔
تاریخ مانگ کر شرمندہ نہ کریں
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ ایرانی ہوٹل گئے ہیں، شرمندہ نہ ہوں ہم بھی جاتے ہیں، وہاں لکھا ہوتا ہے ادھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ ہم بھی کہتے ہیں تاریخ مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔
پیپلز پارٹی ایم این اے رمیش کمار ملانی بولے کہ ہندو جم خانہ ہندو کمیونٹی کے حوالے کیا جائے، سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ یہ عمارت ناپا کے پاس ہے، ہندو جم خانہ ایسوسی ایشن 1925 نے سیٹھ رام گوپال داس نے بنائی، ناپا صرف 7 ہزار گز کی جگہ پر ہے۔
عدالت نے پیپلز پارٹی ایم این اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کیس میں فریق نہیں ہیں۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ 1963 میں ایویکیوٹ پراپرٹی میں چلائی گئی، 1911 میں صوبائی حکومت نے کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کی ہے۔
عمارت میں مندر کے نقوش ہیں
ڈاکٹر رمیش کمار ملانی بولے کہ اس عمارت میں اوم کے نقش بنے ہیں یہ مندر کے نقوش ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل اسمبلی پر کلمہ لکھا ہے تو کیا وہ مسجد ہو گئی ہے؟ رمیش کمار نے سوال اٹھایا کہ ناپا کو سندھ گورنمنٹ 2 جگہ دینے کو تیار ہیں، 1947 کے بعد کسی جگہ آپ اس جگہ کے حصول کے لیے نہیں گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس کے پاس گئی آپ کو اعتراض نہیں وفاق کے پاس گئی آپ کو اعتراض نہیں ہوا، ناپا والے تو آپ کی جگہ کو محفوظ کرکے رکھے ہوئے ہیں، ناپا ہندو تعمیرات کی شکل کو محفوظ کرکے رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو تو اس پر خوش ہونا چاہیے۔
اب کوئی عہدہ صاحب نہیں ہے
رمیش کمار ملانی نے کہا کہ ہم اس پر کمیونٹی کی سوشل ایکٹویٹی چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں شادی ہال بنانا چاہتے ہیں، رمیش کمار نے کہا کہ کمشنر صاحب کو بولیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کمشنر صاحب نہیں 1947 میں ہم آزاد ہو گئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب کوئی عہدہ صاحب نہیں ہوتا۔
رمیش کمار نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ یہ سندھ گورنمنٹ کے حوالے کر دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایک عمارت بتا دیں جو سندھ حکومت نے محفوظ رکھی ہو، رمیش کمار نے جواب دیا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس دیکھ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں عوام نہیں جاتی ہے، گورنر ہاؤس جاکر ابھی دیکھ لیں، کسی ملک میں گورنر ہاؤس کے باہر کینٹینر نہیں رکھے ہوتے۔
رمیش کمار ملانی سندھ حکومت کی محفوظ عمارت سے متعلق عدالت کو جواب نہیں دے سکے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس عمارت کا قبضہ آپ کے حوالے نہیں کریں گے۔ ناپا کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ناپا کے بورڈ ممبران میں ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی شامل ہیں، ستیش آنند معروف فلم ڈائریکٹر ہیں۔ رمیش کمار نے موقف اپنایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی مشترکہ باڈی ہو۔
ہم آپ پر یہ بوجھ نہیں ڈالیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکار نے یہ اچھا کام کیا آپ اس کو سراہیں، کوئی اچھا آرکیٹکچر ہے تو بتائیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ماروی مظہر ایک اچھی آرکیٹکچر ہیں ان سے خدمات لی جا سکتی ہیں، رمیش کمار نے کہا کہ طارق حسن ایک اچھے آرکیٹکچر ہیں انہوں نے ایس او ایس ویلج بنائے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو بلوچستان کے ایک مندر کا بتایا وہ تو ابھی تک آپ نے صیح نہیں کرایا۔
قومی اسمبلی کی عمارت پر کیا لکھا ہے؟
چیف جسٹس نے رمیش کمار ملانی سے استفسار کیا کہ نیشنل اسمبلی کے اوپر کیا لکھا ہے، رمیش کمار بولے کہ وہاں کلمہ لکھا ہے، ’لا الہ لا محمد رسول اللہ‘، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس سے قومی اسمبلی مسجد ہوگئی۔ ابھی کیس نمٹا نہیں رہے بلکہ فیصلہ محفوظ کر رہے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کہ کہ سندھ حکومت، ناپا، درخواست گزار و دیگر فریقین اپنی تجاویز عدالت میں جمع کرائیں، آپ کی تجاویز کے بعد دیکھیں گے سماعت کریں یا فیصلہ دیں۔