کسی رہنما نے خدا جانے کس موسم کی ادا کے زیرِ اثر وطنِ عزیز میں 12 موسموں کی خبر دی تھی۔ 12 تو کیا ہونے تھے، جو 4 موسم موجود تھے، وہ بھی شرما کر سمٹنے لگے۔ اصل میں ہمارے پاس 2 ہی موسم بچے ہیں؛ گرمی اور سردی۔ موسم کی ان 2 اقساط کے آنے اور جانے کے بیچ بہار اور خزاں کا مختصر سا اشتہار چلتا ہے۔ بہار اور خزاں کا رومان سرما کی طوالت اورسموگ وغیرہ نے ختم کر دیا ہے۔ بہار تو اب شاعر کے خوابوں میں بسنے والی بہار یا محبوب کی کمر کی طرح ہوتی جا رہی ہے۔
کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے
آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی
(ساحر لدھیانوی)
یہ موسمیاتی تبدیلی خطرناک بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ ایک زمانے سے ماہرینِ موسمیات اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ دیگر ممالک تو عملی طور پر اس تبدیلی سے نمٹنے اور اس تباہی کی رفتار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے متعلق کوئی سنجیدہ بحث تک شروع نہیں ہو سکی۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پرائم ٹائم شوز دن بھر کی سیاسی نوک جھونک کو ٹاکی شاکی مار کے دوبارہ پیش کرنے کی سعی میں مگن ہیں یا لطیفہ گوئی کے اثر میں ہیں۔ سوشل میڈیا تو خیر ایک الگ ہی دنیا ہے، جہاں تباہی کی ویڈیوز اور تصاویرمیں اپنا جھوٹ شامل کر کے لائیکس لینے کی دوڑلگی ہو، وہاں تباہی کے اسباب اورحل جیسے سنجیدہ موضوعات پر کیا بات ہونی۔
یہ تبدیلی بالکل سامنے کی بات ہے اورسب کو نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا ہر روز کوئی پرانی یاد تازہ کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ آج کے دن آپ نے فلاں برس میں کیا کِیا تھا۔ گذشتہ برس 2019 کے اکتوبرکے وسط کی اپنی ایک تصویرسامنے آئی جو شدید دھند میں بنوائی گئی تھی۔ جبکہ پچھلے برس اکتوبر میں موسم خوشگوار تھا اور دھند تو کہیں دسمبر کے آخر میں جا کے پڑی۔ اسی طرح مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 15 فروری کو لاہور میں گاڑیوں کے اندر بلکہ گھروں میں بھی اے سی چل جاتے تھے جبکہ اس بار مارچ کے وسط تک اچھی خاصی سردی تھی۔ یعنی بسنت کا جشن جو ہماری ہوس اور بے وقوفی نے پہلے ہی برباد کر کے ختم کر دیا تھا، اب اس موسم کی یاد منانے یا محسوس کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے جا رہا ہے۔ یہ کوئی افسوس سا افسوس ہے۔
اس برس کئی شہروں میں اپریل کے کم ترین درجہ حرارت دیکھے گئے۔ ان تبدیلوں سے کچھ لوگ خوش ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ فکر مندی کی بات ہے۔ موسم اپنی جگہ سے کئی ہفتے ادھر ادھر ہو رہے ہیں اور فطرت کے معمولات میں یہ تبدیلی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے برف باری کی مسرت کو بھی پریشانی کا سبب بنا دیا ہے۔ وہ برف باری جس سے لوگ لطف اندوز ہونے کے لیے گلیات کا رخ کرتے تھے، انسانوں کو نگلنے لگی ہے۔ پہلے ایسی بے ہنگم اور اتنی زیادہ برف باری کہاں ہوتی تھی۔ اس سال تواپریل کے مہینے میں شمالی علاقوں میں برف باری ہو رہی ہے۔ جو رستے ان دنوں میں کھلنا شروع ہو چکے ہوتے تھے، وہاں ابھی برف پڑ رہی ہے۔ دریائوں میں مون سون سے پہلے ہی ایک سیلابی صورت حال ہے۔ ایک جانب شدید سیلاب تو دوسری جانب خشک سالی سے فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ اس تبدیلی کو بہت عام سی خبر کے طور پر لے رہے ہیں۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں کا جانا بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے فطرت کا نظام ہی نہیں بدل رہا بلکہ ہمارا ثقافتی نظام بھی درہم برہم ہو رہا ہے، جس کی تباہی میں ہمارا اپنا حصہ بھی اچھا خاصا ہے۔ موسموں کےساتھ جڑے میلے ٹھیلے تو پہلے ہی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی نذر ہو چکے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو ہمارے دیسی مہینوں کا موسموں کے ساتھ کیسا مضبوط تعلق تھا۔ ہر مہینے کے ساتھ موسموں کی سوغاتیں اور کئی خاص محاورے اورخاص ٹوٹکے یعنی ریمیڈیزمخصوص تھیں۔
مثلاً ویساکھ یا ویساکھی کا مہینہ جس سے بکرمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ (اپریل کے وسط) کے آغاز میں زمانہ قدیم سے دھریک کی تازہ ونوخیرکونپلیں دیسی گھی میں ملا کر نہار منہ کھائی جاتیں اور بتایا جاتا تھا کہ اس سے خون صاف ہوتا ہے اور دانت درد، سردرد، پھوڑے پھنسیوں سمیت کئی بیماریاں انسان سے دور رہتی ہیں۔ اسی طرح محاورے دیکھیں تو جیسا کہ چیتر(بہار کا موسم) کے لیے کہا جاتا ہے کہ ‘وسے چیتر نہ گھر مٹے نہ کھیتر’، یعنی چیت کی بارش سے گندم کی فصل کو اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ دانے سنبھالنے کو گھر میں جگہ ہوتی ہے نہ کھلیان میں۔ بارشوں کے اپنے وقت پر اور خاص موسم سے ہٹ کر برسنے سے بسنت پالا اڑنت، ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے جیسے محاورے اور کئی دیگر موسموں اور مہینوں کے ساتھ جڑے ہوئے جملے، گانے اور میلے ٹھیلے سب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
آئس ایج یعنی برفاب زمانے کا آغاز گرمی سے ہی ہوتا ہے، زمین کا درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ برف پگھلنے لگتی ہے، بڑے بڑے گلیشئیرز ٹوٹنے سے سمندروں میں طوفان آتا ہے اور نتیجتاً شدید بارشیں اور برفباری ہوتی ہے۔ یہ وہ تباہی ہے جس سے تہذیبیں مٹ جاتی ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ کہیں ہم آئس ایج کی جانب تو نہیں بڑھ رہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب تبدیلی کا عمل اچانک نہیں ہوا بلکہ ہمارے سیاسی، سماجی، اور معاشرتی زوال کی طرح بتدریج ہوا ہے۔ اس ملک کے 2 سب سے بڑے مسائل جن کی جانب، اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف اداروں کی بالکل توجہ نہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی ہیں۔ اوریہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، گویا ہم اپنی بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
نگل رہی ہیں مجھے کچھ پہاڑ سی موجیں
لپٹ رہا ہوں میں اک ڈوبتے سفینے سے
(سجاد بلوچ)