انقلاب، خونی انقلاب، بغاوت، خانہ جنگی یا سِول وار کِن بلاؤں یا چڑیوں کے نام ہیں، یہ ہمیں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا جب تک ہمیں ان کا سامنا نہیں ہوتا۔ ایک بار ایسی صورتحال سے پالا پڑنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم یہ سب واقعی چاہتے ہیں یا نہیں؟ تب جا کر ہی ہمیں صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا کہ ہمارے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ کا مطلب کیا ہے۔
ہمارے سوشل میڈیائی دانشور اور انقلابی ان اصطلاحات کا استعمال آئیڈیلزم کی حد تک بے دریغ کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کی تقریر یا تحریر ٹھنڈی پڑنے لگے تو فوراً ان مصالحوں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بیٹھے سیاسی انقلابیوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے، جس کا اخراج کمنٹس کی شکل میں مخالف سیاسی (یا غیر سیاسی) لیڈروں کو غلیظ گالیوں کی صورت میں ہوتا ہے اور صاحبِ ولاگ کی تعریف و توصیف اس کا اثاثہ بنتی ہے کہ آج تو فلاں صحافی فلاں ادارے یا سیاسی جماعت کو پڑ گیا اور فلاں لیڈر تو وڑ گیا۔
ان کچے پکے اور کچھ گلے سڑے دانشوروں کے نزدیک پاکستان کے مسائل کا حل انہی چیزوں میں مضمر ہے جب کہ ان کا طرزِ زندگی دیکھا جائے تو ان کا انقلاب ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ یا حوالات میں گزرے چند گھنٹوں کی مار ہے۔ اسی طرح کے ایک انقلابی حضرت اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اور فارم ہاؤسز وغیرہ پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کر کے حوالات سے سیدھے دبئی پہنچے۔ آج کل وہاں سے وی لاگ پہ وی لاگ کھڑکا رہے ہیں۔
2006 کے وسط میں ایک ہفتے کے لیے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو جانا ہوا۔ یہ نیپال میں جاری خانہ جنگی کے عروج کا وقت تھا۔ 90 کی دہائی کے وسط میں کمیونسٹ پارٹی (ماؤسٹ) کی طرف سے بادشاہت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا، جن کے کارکن ماؤ باغی کہلاتے تھے۔ اس خانہ جنگی کو ایک دہائی سے زیادہ گزر چکا تھا۔ اس دوران ملک اور عوام جس حال کو پہنچ چکی تھی، کھٹمنڈو چیخ چیخ کر اس کی گواہی دے رہا تھا۔
جوں جوں جہاز کھٹمنڈو ایئرپورٹ کی طرف بڑھتے ہوئے نچلی پرواز شروع کرتا ہے تو اطراف سے ہمالیہ کے برف پوش پہاڑ استقبال کرتے ہیں۔ اگر موسم صاف ہو تو آپ انتہائی خوش قسمت ہیں کیونکہ یہ نظارہ دنیا کے کسی اور ایئرپورٹ کو نصیب نہیں۔ اسی وجہ سے ایوی ایشن کی دنیا میں کھٹمنڈو ایک چیلنجنگ اور خطرناک ایئرپورٹ کہلاتا ہے، جہاں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا ایک طیارہ گر بھی چکا ہے۔
نیپال ایک انتہائی اہم اور خوبصورت سیاحتی مقام ہے جسے دیکھنے کی خواہش ہر باذوق انسان کو ہو سکتی ہے۔ وہاں موجود بدھسٹ مونسٹریز، بھگتا پور دربار سکوائر، اسٹوپاز، تاریخی مندر اور کھٹمنڈو سے نکل کر خوبصورت پہاڑوں میں ایسے مقامات، جہاں سے پورا ہمالیہ ایک دیوار کی مانند نظر آتا ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کی وش لسٹ میں شامل ہیں۔
ایئرپورٹ سے نکلتے وقت شام پڑ چکی تھی، ہم اپنے ہوٹل کی طرف گاڑیوں کے قافلے کی شکل میں رواں دواں تھے۔ پورا شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے استفسار پر بتایا کہ ملکی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ بجلی صرف چند گھنٹوں کے لیے آتی ہے۔ جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں انہوں نے جنریٹرز لگا رکھے ہیں۔ اسی طرح بڑے ہوٹلز بھی بجلی کی سرکاری ترسیل کی بجائے اپنے انتظامات پر ہی بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں، زیادہ تر لوگوں کا گزر بسر سیاحوں کی بدولت ہے۔
خوش آئند بات یہ تھی کہ ان حالات کے باوجود بھی یورپی سیاحوں نے اس ملک میں آنا نہیں چھوڑا تھا۔ پورا شہر گورے سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سڑکوں کی حالت انتہائی خراب تھی۔ بڑے بڑۓ کھڈوں کی وجہ سے گاڑی لگاتار ہچکولے کھا رہی تھی۔ چند بار تو گاڑی کھڈے میں پھنس کر رک بھی گئی۔ خانہ جنگی، جلسے جلوس، پولیس، اور فوج اور باغیوں میں جاری قتل و غارت گری کی وجہ سے عوامی ضروریات اور مسائل ریاست کی کسی لسٹ میں شامل نہیں تھے۔
ہوٹل میں چیک اِن کے فوری بعد شہر کا جائزہ لینے کی ٹھانی۔ چند دوستوں کے ہمراہ جب ہم گلیوں اور سڑکوں کی گرد چھاننے نکلے تو ہر طرف خوف کے سائے پھیلے تھے۔ لوگوں میں بے چینی کی حد تک افرا تفری دیکھی۔ ہر کوئی گھر یا ٹھکانے پر پہنچنے کی جلدی میں تھا۔ چند ایک مقامات پر ہوٹلوں، قہوہ خانوں اور ڈھابوں کے باہر نوجوانوں کی ٹولیاں خوش گپیوں میں مصروف نظر آئیں، جن میں زیادہ تر مقامی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات شامل تھے۔ شاید وہ ان مسلسل حالات کے عادی ہو کر ان سے بے پرواہ ہو چکے تھے۔
ایک شام ہمارا ڈرائیور ہمیں اس اسٹریٹ پر لے گیا جہاں بے شمار بارز اور نائٹ کلب تھے۔ ہر کلب کے باہر نوکری کی متلاشی نوجوان لڑکیوں کی قطاریں تھیں، جنہیں دروازے پر موجود لمبے چوڑے محافظ (باکسرز) روکے کھڑے تھے۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ خانہ جنگی کے اس دور میں عوام اس حد تک مجبور ہو چکی ہے کہ یہ واحد نوکری ہے جس میں انکم قدرے بہتر ہے کیونکہ یہاں غیر ملکی سیاح کھل کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔
اکثر نوجوان یورپی سیاح جوڑے بدھسٹ فلاسفی سے متاثر ہو کر کھٹمنڈو سکون اور نروان کی تلاش میں پہنچتے ہیں، جو یہاں جا بجا پھیلے مندروں اور اسٹوپاز کے احاطوں میں اپنے من میں ڈوبے (بظاہر قابل اعتراض حالت میں) نظر آتے ہیں، جو کسی بھی وقت غیر اعلانیہ دنیا و مافیا سے بے پرواہ بوس و کنار شروع کر سکتے ہیں۔ مقامی غربت کے مارے نیپالی ان کے آس پاس منڈلاتے نظر آ رہے تھے کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے۔
ایک مقام تو انتہائی خوفناک تھا، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ کئی دن تک ان دردناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ کر پایا۔ ایک دن گھومتا گھماتا شہر کے ایک بڑے چوراہے پر آ نکلا، جہاں بہت سے سیاح موجود تھے۔ اس چوراہے میں خاص بات یہ تھی کہ یہاں بہت سے آوارہ کتے پھر رہے تھے جنہیں سیاح کھانے کی چیزیں پھینک رہے تھے۔ ان کتوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے (انسانوں کے) بھی شامل تھے۔ ایک بچے کو پوری روٹی ملی، وہ ایک نکر پر 2 کتوں کے ہمراہ بیٹھا ایک نوالہ خود اور ایک کتوں کے منہ میں ڈال رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ بچے لاوارث ہیں، انہی سڑکوں پر رہتے، کھاتے پیتے اور سوتے ہیں۔
اسی طرح ایک دن شہر کے گنجان آباد علاقے میں پہنچا جہاں بہت سے بازار آپس میں مل رہے تھے۔ دکانوں کے باہر فٹ پاتھ تک بازار سجے ہوئے تھے۔ سڑکوں پر وہی افرا تفری اور عجلت۔ میں ایک جگہ کھڑا ہو کر اطراف کا جائزہ لے رہا تھا کہ میرے کانوں میں ایک آواز پڑی، ‘صاحب سنترہ کھا لو’۔
میں نے مڑ کے دیکھا تو ایک دبلا پتلا نوجوان سنتروں سے بھری ریڑی لیے میری طرف مسکرا کے دیکھ رہا تھا۔
میں :تم ہندی بول لیتے ہو؟
وہ: تھوڑا تھوڑا، آپ انڈیا سے آئے ہو؟
میں: نہیں، پاکستان سے۔
وہ: اوہ، پاکستان، ویلکم ویلکم۔
وہ سنترے کاٹ کر ایک اخبار کے ٹکڑے پر ڈال کر اپنے بنائے ہوئے کسی سرخ مصالحے کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ میں نے اسے 2 سنترے کاٹنے کو کہا۔ اس دوران میں نے پوچھا کہ کیسی گزر بسر ہو رہی ہے؟ اس پر وہ بولا کہ صاحب آپ کے سامنے ہے سب کچھ۔ پھر اس نے مسائل کی ایک لمبی فہرست گن ڈالی۔
ابھی وہ اپنا کام کر رہا تھا کہ بازار میں ہلچل شروع ہو گئی۔ لوگ جلدی میں چیزیں سمیٹ کر وہاں سے نکلنا شروع ہو گئے۔ دکانیں سمیٹی جانے لگیں۔ میں ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس نوجوان نے اخبار کا ٹکڑا میرے ہاتھ پر رکھا جس پر گول گول کٹے ہوئے سنترے ایک ترتیب سے پڑے تھے اور خوف زدہ چہرے کے ساتھ بولا، ‘صاحب جلدی سے پیسے دے دیں، میں نے نکلنا ہے’۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ لوگ یہاں سے کیوں جا رہے ہیں؟ اس کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا، جلوس’۔’
میں نے بازار کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھا۔ ٹرکوں، گاڑیوں اور پیدل افراد پر مشتمل ایک بہت بڑا جلوس دھیرے دھیرے اسی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ ماؤ باغیوں کا جلوس تھا، جن کے متعلق میں نے پاکستانی میڈیا پر بہت سن رکھا تھا۔ بہت سے ڈنڈا بردار چائنیز فیچر کے نوجوان ماتھوں پر سرخ پٹیاں باندھے (جن پر ان کی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا) جلوس کے آگے راستہ صاف کر رہے تھے۔ ٹرکوں پر نوجوان لڑکیاں اور لڑکے فوجی وردیوں میں اسلحہ لہراتے نعرے لگا رہے تھے۔
جو دکانیں کھلی رہ گئی تھیں، وہ انہیں ڈنڈوں کے زور پر بند کروا رہے تھے۔ پورا جلوس سرخ جھنڈوں کے سائے میں آگے بڑھ رہا تھا۔
میں سکتے کے عالم میں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ جلوس میرے پاس پہنچ گیا۔ سنترے والا جا چکا تھا۔ ان لٹھ بردار ماؤ باغیوں میں سے ایک کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ میری طرف بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈا اس کے قد سے بھی لمبا تھا۔ وہ بالکل میرے سامنے دائیں ہاتھ میں ڈنڈا زمین پر لگائے مولا جٹ کے اسٹائل میں کھڑا ہو گیا۔ میرے دائیں ہاتھ پر وہی اخبار کا ٹکڑا اور سنترے دھرے تھے۔ میں اس کی اسپاٹ آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ اپنی زبان میں کچھ بولا، جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں نے مسکرا کر سر ہلایا جیسے اس کی تائید کر رہا ہوں۔ اس پر وہ پھر کچھ بولا اور آگے بڑھ گیا۔ یہ ماؤ باغی سیاحوں کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے پیش آ رہے تھے۔ ان کی ساری سختی مقامی نیپالیوں اور دکانداروں کے لیے تھی۔
2006 میں ایک معاہدے کے تحت خانہ جنگی کا اور 2008 میں نیپال سے بادشاہت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس وقت نیپال ایک ڈیموکریٹک سیکولر اسٹیٹ ہے جہاں کی حکمران کمیونسٹ پارٹی ہے۔